کسی خاص کے لیے۔‘‘
پھر شیخ نے (ص۵۷۳۔۵۷۶) میں فرمایا:
’’جو شخص دین کے حقائق، دلوں کے احوال و معارف اور اس کے ذوق ووجدان سے واقف ہے، وہ جانتا ہے کہ سیٹیوں اور تالیوں کا سننا دلوں کے لیے کسی منفعت کا باعث ہے نہ کسی مصلحت کا، مگر اس میں جو ضرر اور بگاڑ ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، وہ روح کے لیے اس طرح ہے جیسے جسم کے لیے شراب، وہ نفوس میں اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے جس طرح جام شراب۔
اسی لیے اسے سننے والے شراب کے نشے سے زیادہ مدہوش ہوتے ہیں، وہ بلا تمیز لذت پاتے ہیں، جیسا کہ شراب نوش پاتا ہے، بلکہ انہیں اس سے زیادہ اور بڑا نشہ حاصل ہوتا ہے جو کسی شراب نوش کو حاصل ہوتا ہے جو شراب انہیں جس سے روکتی ہے، اور انہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے اس سے کہیں بڑھ کر روکتی ہے اور وہ ان کے درمیان شراب سے بڑھ کر عداوت اور بغض پیدا کرتی ہے، حتی کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائے بغیر قتل کر دیتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ جو شیاطین ان کے ساتھ ہوتے ہیں، بے شک اس حال میں جبکہ ان پر شیاطین نازل ہوتے ہیں تو انہیں شیطانی احوال حاصل ہوتے ہیں، وہ ان کی زبانی کلام کرتے ہیں جس طرح جن اس مجنون کی زبانی کلام کرتا ہے، یا تو ایسے کلام کے ساتھ جو عجمیوں کے کلام کی جنس سے ہے، جو ان کا کلام نہیں سمجھتے، جیسے ترکی یا فارسی زبان، یا ان کے علاوہ، اور وہ انسان جس پر شیطان کا حملہ ہوتا ہے اجنبی ہو جاتا ہے وہ اسے اچھی طرح بول نہیں سکتا، بلکہ وہ کلام اس کے کلام کی جنس سے ہو جاتا ہے جو وہ شیاطین ان کے بھائیوں سے ہوتے ہیں، یا تو ایسے کلام کے ساتھ جس کا معنی عقل و فہم میں نہ آتا ہو، اور اسے صرف اہل مکاشفہ ہی پہچانتے ہیں: ظاہر اور آنکھوں کے سامنے ہوجانے سے۔[1]
|