Maktaba Wahhabi

700 - 756
ہمارے شیخ (جزاہ اللہ عن الاسلام والمسلمین خیرًا) نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۲۹۴) میں اس عنوان کے تحت بیان کیا: تنبیہ:… علماء نے جب اس بدعت [1] کا انکار کیا، تو ان میں سے کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آنی چاہیے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی مشروعیت کا انکار کرتے ہیں! بلکہ وہ تو اسے ایسی جگہ پڑھنے کا انکار کرتے ہیں جہاں پڑھنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم نہیں دی، یا اس (درود) کو ایسی صفت اور ہیئت کے ساتھ ملا دیا جائے جسے اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مشروع قرار نہیں دیا، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ ایک آدمی نے چھینک ماری…[2] دیکھیں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کس طرح الحمد کے ساتھ درود بیان کرنے کا اس دلیل کے ساتھ انکار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کیا، اس کے ساتھ تصریح بھی کی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ پڑھتے ہیں اور آپ نے یہ کسی شخص کے دل میں پیدا ہونے والے اس خیال کو دور کرنے کے لیے فرمایا کہ کہیں وہ یہ نہ سوچے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود صلاۃ کا کلی طور پر انکار کرتے ہیں، جیسا کہ بعض جاہل جس وقت سنت کے حامیوں کو اس جیسی بدعت کا انکار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اس وہم کا شکار ہو جاتے ہیں، اور وہ انہیں الزام دیتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اتباع سنت کی ہدایت نصیب فرمائے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الادب المفرد‘‘[3] سے ابن عمر کے اثر رقم (۹۳۳) پر شرح کرتے ہوئے کہا: کہ جب وہ چھینک مار کر الحمد للہ کہے، تو کہا جاتا: ’’یَرْحَمُکَ اللّٰہ‘‘ تو وہ کہتے: ’’یَرْحَمُنَا اللّٰہُ وَاِیَّاکُمْ، وَیَغْفِرُ لَنَا وَ لَکُمْ‘‘ ہمارے شیخ نے حاشیہ میں اس پر تعلیقاً کہا: ابن عباس کے اثر رقم (۹۲۹) پرشرح دیکھیں، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بڑے حکیمانہ انداز سے چھینک مارنے کے حوالے سے الحمد للہ کے مسنون طریقے پر اضافے کا انکار ثابت ہے کہ مخالف کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ اس وہم کا شکار ہو کہ انہوں نے مشروعیت کی اصل کا انکار کیا جو کہ انہوں نے انکار کیا جیسا کہ بعض لوگ آج اس جیسے انکار سے وہم کا شکار ہو جاتے ہیں، چہ جائیکہ اس پر انکار کے حوالے سے جلدی کرے… آخر تک فائدہ کے لیے، تاکہ جو کلام بیان ہوا ہے اس میں کسی استدلال کرنے والے کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہے! ہم شیخ کی ان تعلیقات سے نقل کریں گے جنہیں انہوں نے ’’الأدب المفرد‘‘[4] کی تحقیق میں لکھا، ہم کہتے ہیں:
Flag Counter