…کیا یہ اضافہ [1] چھینک مارنے والے کا ’’الحمد للہ‘‘ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے اضافے کی طرح ہے؟!
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا ہے، جیسا کہ ’’مستدرک الحاکم‘‘ (۴/۳۶۵) میں ہے اور سیوطی نے ’’طحاوی للفتاوی‘‘ (۱/۳۳۸) میں جزم کے ساتھ کہا ہے کہ وہ بدعت مذمومہ ہے، اور ابن عابدین نے ’’الحاشیۃ‘‘ (۱/۵۴۱) میں اس کو مکروہ قرار دیا ہے، کیا مقلد حضرات اس سبب کا جواب دے سکتے ہیں جس نے سیوطی کو اس کے متعلق جزم کے ساتھ کہنے پر آمادہ کیا؟! ان میں سے کوئی جلدی سے … جیسا کہ ان کی عادت ہے … ان پر الزام لگاتے ہوئے کہتا ہے: وہ وہابی ہیں! حالانکہ سیوطی کی وفات محمد عبدالوہاب کی وفات سے تقریباً تین سو سال پہلے ہوئی!!
اور شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۶۸۱۔۶۸۲) میں بیان کیا:
… کیا تم ابن عمر رضی اللہ عنہما کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے چھینک مارنے کے بعد الحمد للّٰہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا اضافہ کرنے والے پر اعتراض کیا ہے، اور اس دلیل کی بنیاد پر کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے، اور انہوں نے اسے کہا: ’’میں بھی کہہ سکتا ہوں: الحمد للّٰہ، والسلام علی رسول اللّٰہ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس طرح تعلیم نہیں دی، آپ نے ہمیں تعلیم دی کہ جب ہم سے کوئی چھینک مارے تو وہ ہر حال میں کہے: الحمد للّٰہ؟‘‘
حاکم نے اسے ’’المستدرک‘‘ (۴/۲۶۵۔۲۶۶) میں بیان کیا، اور کہا:
’’صحیح الاسناد‘‘ اور ذہبی نے ان سے موافقت کی ، اور وہ اسی طرح ہے جس طرح ان دونوں نے کہا یا اس کے قریب ہے، پس دیکھیں: ’’المشکاۃ‘‘ (۳/۳۴۱) تحت حدیث رقم (۴۷۴۴)[2] اور ’’الارواء‘‘ (۳/۳۴۵)
جب آپ نے یہ وضاحت جان لی تو وہ حدیث [3] دین و عبادت میں اضافے کے رد پر بہت سے دلائل میں سے ہے، اس پر غور کریں اور اسے یاد رکھیں، وہ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مخالفین کی تسلی و تشفی میں تمہیں فائدہ دے گی، اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے۔
|