Maktaba Wahhabi

667 - 756
اس وقت تو ٹھہرتیں کہ احرام والا تلبیہ پکارتا، پھر وہ جحفہ چلی جاتیں اور وہاں سے عمرہ کے لیے احرام باندھتی تھیں، جیسا کہ ’’مجموع الفتاویٰ‘‘ لإبن تیمیۃ (۱۶/۹۲) میں ہے۔ …اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’الاختیارات العلمیۃ‘‘ (ص۱۱۹) میں بیان کیا: ’’نفلی عمرہ کے لیے مکہ سے باہر جانا مکروہ ہے، یہ ایک بدعت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ آپ کے اصحاب نے آپ کے عہد میں کیا، رمضان میں نہ غیر رمضان میں اور نہ ہی عائشہ کو اس کا حکم دیا، بلکہ ان کے دل کو خوش کرنے کے لیے مراجعت کے بعد انھیں اجازت دی اور اس کا بیت اللہ کا طواف کرنا وہاں سے خروج سے افضل ہے اور اس پر اتفاق ہے اور جس نے اسے مکروہ نہیں جانا وہ جواز کے طور پر وہاں سے جائے گا۔‘‘ ’’مجموع الفتاوی‘‘ (۲۶/۲۵۲۔۳۶۳) میں ان کے جو مذکورہ جواب ہیں، ان کا یہ خلاصہ ہے، پھر انھوں نے (۲۶/۲۶۴) فرمایا: ’’اسی لیے سلف اور ائمہ اس سے منع کیا کرتے تھے، سعید بن منصور نے طاؤس سے … جو ابن عباس کے اجل اصحاب میں سے ہیں … اپنی ’’سنن‘‘ میں روایت کیا، انھوں نے کہا: ’’جو لوگ تنعیم سے عمرہ کرتے ہیں میں نہیں جانتا کہ انھیں اس پر اجر ملے گا یا انھیں عذاب دیا جائے گا؟ ان سے پوچھا گیا: انھیں عذاب کیوں دیا جائے گا؟ انھوں نے کہا: اس لیے کہ ایسا کرنے والا بیت اللہ کا طواف چھوڑ کر چار میل سفر کرتا ہے اور پھر آتا ہے، اس کا چار میل جانا آنا اس عرصے میں وہ دو سو طواف کرسکتا ہے اور وہ جس قدر بیت اللہ کے طواف کرے گا وہ اس کے علاوہ کسی اور چیز/ جگہ کی طرف جانے سے بہتر ہے۔‘‘ امام احمد نے اسے تسلیم کیا ہے اور عطاء بن سائب نے کہا: ’’ہم نے حج کے بعد عمرہ کیا تو سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے ہم پر اعتراض کیا۔‘‘ دیگر نے اس کی اجازت دی ہے، لیکن انھوں نے کیا نہیں…‘‘ پھر ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۶/۲۶۱) میں بیان کیا: ہم نے جو صحیح روایات نقل کیں اور ان میں اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے سبب کے بیان پر جو غور کرے گا، اسے یقینی طور پر واضح ہوجائے گا کہ اس میں تمام حاجیوں کے لیے عام شرعی حکم نہیں، اگر ایسے ہوتا جیسے حافظ کو وہم گزرا تو صحابہ اپنے حج کے دوران اور اس کے بعد اس عمرے کی ادائیگی میں جلدی کرتے، ان کا اس کے متعلق عدم تعبد اور سلف میں سے جس نے اس کی کراہت کی تصریح کی ہے اس کے ہوتے ہوئے (جیسا کہ بیان ہوچکا) اس کے عدم مشروع ہونے پر سب سے بڑی دلیل ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا جس عذر کے پیش نظر اپنا عمرہ مکمل نہ کرسکیں شائد ہی کسی اور کو یہ عذر پیش آیا ہو، واللّٰہ تعالی ولی التوفیق۔
Flag Counter