Maktaba Wahhabi

666 - 756
۱۲۵: ان کا مسجد حرام میں نمازی کے آگے سے گزرنے کو مباح سمجھنا اور اس نمازی کی مخالفت کرنا جو انہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے: [1] ’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘(۱۳۵/۱۲۵)، ’’المناسک‘‘ (۵۹/۱۲۷)۔ ۱۲۶: حج کرنے والے کو حاجی کہہ کر پکارنا: ’’تلبیس إبلیس‘‘ لإبن الجوزی (ص۱۵۴)، ’’نور البیان فی بدع آخر الزمان‘‘ (ص۸۲)، ’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘(۳۵/۱۲۶)، ’’المناسک‘‘ (۵۹/۱۲۸)۔ ۱۲۷: نفلی عمرہ کرنے کے لیے مکہ سے باہر جانا: ’’الإختیارات العلمیۃ‘‘ (۷۰)، ’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘(۱۳۵/۱۲۷)، ’’المناسک‘‘ (۵۹/۱۲۹)۔ حائضہ عورت کے علاوہ جو کہ حج کا عمرہ نہ کرسکی تھی کسی اور کے لیے تنعیم (مسجد عائشہ) سے دوسر۱ عمرہ کرنے کے بدعت ہونے کے مسئلے کی تفصیل: ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحہ‘‘ (۶/۲۵۷۔۲۵۸) میں بیان کیا: ہم نے جو ان روایات[2] کو ذکر کیا … اور وہ سب روایات صحیح ہیں … واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو جو حج کے بعد عمرہ کرنے کا حکم فرمایا تھا وہ اس عمرہ کے بدلے میں تھا جو وہ ایام ماہواری کے باعث نہ کرسکی تھیں، اسی لیے علماء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: ’’ہذہ مکان عمرتک‘‘ یہ تمہارے عمرے کی جگہ ہے‘‘ کی تفسیر میں بیان کیا: یعنی: وہ منفرد عمرہ جو آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے علاوہ عورتوں کو، جو کہ مکے میں تھیں، وہ عمرہ کرکے احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوگئی تھیں، پھر انھوں نے الگ سے حج کیا۔ جب آپ نے یہ جان لیا، تو آپ پر بالکل واضح ہوگیا کہ یہ عمرہ حائضہ کے ساتھ خاص ہے جس کے لیے حج کا عمرہ مکمل کرنا ممکن نہ تھا، ایام ماہواری سے پاک عورتوں کے لیے وہ مشروع نہیں چہ جائیکہ مرد حضرات ہوں، اس سے اس کے متعلق سلف کے اعتراض اور ان میں سے بعض کا اس کو مکروہ قرار دینے کی تصریح کے متعلق جو راز ہے وہ ظاہر ہوتا ہے، بلکہ عائشہ سے بذات خود ان کے حوالے سے اس پر عمل صحیح ثابت نہیں، جب وہ حج کرتی تھیں تو وہ
Flag Counter