غور کریں کہ ابن عمر کو ان کے اعتقاد نے غلطی سے اس بات پر آمادہ نہیں کیا کہ وہ ثابت شدہ سنت کی مخالفت کرتے ہوئے سفر میں پوری نماز پڑھنے والے کو گمراہ قرار دیں یا اسے بدعتی کہیں، بلکہ انہوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھی، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے معاذ اللہ خواہشِ نفس کی پیروی میں پوری نماز نہیں پڑھی، بلکہ یہ ان کی طرف سے اجتہاد کی وجہ سے تھا۔[1]
یہ وہ درمیانی راہ ہے جسے ہم مسلمانوں پر واجب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے درمیان ہونے والے اختلافات کے حل کے لیے اسے اپنائیں، یہ کہ ان میں سے جو بھی جس چیز کو درست سمجھے کہ وہ کتاب و سنت کے موافق ہے تو وہ اس کا برملا اعلان کرے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو گمراہ قرار دے نہ اسے بدعتی کہے جو کسی پیش آمدہ شبہ کے پیش نظر اسے درست نہیں سمجھتا، کیونکہ یہ وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے مسلمانوں میں وحدت اور یگانگت پیدا ہوتی ہے اور اس میں حق ظاہر و جلی طور پر باقی رہتا ہے اور نشانات ان مٹ رہتے ہیں اور اس لیے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مسلمان متعدد اماموں کے پیچھے متفرق طور پر نمازیں پڑھتے ہیں: کوئی حنفی ہے اور کوئی شافعی ہے… یہ چیز یعنی ایک امام کے پیچھے مل کر نماز پڑھنے اور متعدد اماموں کے پیچھے جدا جدا نہ ہونے کی مخالفت ہے۔
مسلمانوں کے درمیان اختلافی مسائل کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے:
بہترین انداز سے حق کا برملا اعلان کرنا، اور شبہہ کی بنا پر، نہ کہ خواہش نفس کی پیروی کی بنا پر، اپنے موقف کی مخالفت کرنے والے کو گمراہ قرار نہ دینا، تقریباً بیس سال سے جب سے اللہ نے ہمیں اتباع سنت کی توفیق دی، تب سے ہم اس موقف پر گامزن ہیں۔ ہم ان حضرات سے بھی اس موقف کو اختیار کرنے کی امید رکھتے ہیں جو مسلمانوں پر گمراہی کا فتویٰ لگانے میں جلدبازی سے کام لیتے ہیں، جن کا اپنے مذہب کے بارے میں یہ موقف ہے:
’’جب ہم سے ہمارے مذہب کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں: درست ہے اور اس میں خطا کا احتمال ہے اور جب ہم سے ہمارے علاوہ دوسروں کے مذہب کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں: خطا ہے اور اس کے درست ہونے کا احتمال ہے۔ اور اسی طرح ان کے مذہب میں یہ بھی ہے کہ (مذہب و مسلک کے) مخالف شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے یا اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے، اسی لیے وہ ایک ہی مسجد میں انتشار کا شکار ہوگئے۔
|