Maktaba Wahhabi

63 - 756
وہ علماء جو اپنے علم وصدق اور صلاح و اخلاص میں معروف ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ہرگز ایسے لوگوں میں سے نہیں ہے، خا ص طور پر چاروں ائمہ مجتہدین، اللہ ان سب سے راضی ہو! ہم قطعی طور پر انہیں اس بات سے پاک سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عبادت کرنے میں مبالغہ کی بدعت کو اچھا قرار دیا ہو، یہ کس طرح ہوسکتا ہے جبکہ انہوں نے اس سے منع کیا ہے، ہم عنقریب بدعت سے متعلق خاص مقالے میں ان کے فرامین ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ! ہاں! ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی اس میں مبتلا ہوا ہو تو وہ شرعی طور پر غلطی ہو، لیکن اس پر ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ انہیں معاف ہے اور اس پر انہیں اجر ملے گا جیسا کہ پہلے کئی بار بیان ہوچکا ہے، ہوسکتا ہے تحقیق و تفتیش کرنے والے کے لیے واضح ہو جائے گا کہ یہ خطا بدعت کی قسم سے ہے، پس انہیں معافی ملنے اور اس پر انہیں اجر ملنے میں حکم مختلف نہیں ہوتا، کیونکہ یہ ان کی طرف سے اجتہاد کی بنا پر ہوا ہے، عالم کو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کی طرف سے غلطی سے ہوا ہے کہ عالم کی طرف سے اس خیال سے بدعت کرنے سے کہ وہ سنت ہے، اس کے درمیان اور اس کے اس خیال سے کسی حرام کے ارتکاب کرنے کے لیے کہ وہ حلال ہے، کے درمیان کوئی فرق نہیں، یہ سب ایسی غلطیاں ہیں جو معاف ہیں، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اس لیے ہم علماء کو دیکھتے ہیں کہ وہ بعض مسائل میں شدید اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو نہ تو گمراہ کہتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کو بدعتی گردانتے ہیں، ہم اس پر ایک مثال بیان کرتے ہیں، دورانِ سفر میں فرض نماز پوری پڑھنے کے بارے میں صحابہ کرام کے دور سے اختلاف رہا ہے، ان میں سے بعض نے اس کی اجازت دی ہے اور ان میں سے بعض نے اسے بدعت اور سنت کی مخالفت قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے موقف سے اختلاف کرنے والوں کو بدعتی قرار نہیں دیا، دیکھئے ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’مسافر کی نماز دو رکعتیں ہے، جس نے سنت کی مخالفت کی اس نے کفر کیا۔‘‘ (مسند السراج: ۲۱/۱۲۲۔۱۲۳، یہ دو صحیح سندوں سے مروی ہے۔) اس کے باوجود انہوں نے اجتہادی طور پر اس سنت کی مخالفت کرنے والے کو کافر قرار دیا نہ اسے گمراہ کہا، مسند السراج ہی میں صحیح سند سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر حضرت عثمان نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں، ابن عمر جب ان کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو چار رکعتیں پڑھتے تھے اور جب وہ اکیلے نماز پڑھتے تھے تو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔[1]
Flag Counter