آیا نہ قبر خلیل پر اور نہ کسی اور نبی کی قبر پر آیا کہ وہ یوں کہتا:
ہم آپ سے قحط سالی یا دشمن کی قوت یا گناہوں کی کثرت کی شکایت کرتے ہیں اور وہ یہ بھی نہیں کہتے تھے:
آپ ہمارے لیے یا اپنی امت کے لیے اللہ سے درخواست کریں کہ وہ انہیں رزق دے یا ان کی مدد کرے یا ان کی مغفرت کرے، بلکہ یہ اور جو اس کے مشابہ ہے وہ بدعات محدثہ میں سے ہے، جسے ائمہ مسلمین میں سے کسی ایک نے بھی مستحب قرار نہیں دیا…‘‘
۲۲۷: اللہ تعالیٰ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم دینا:
’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۳۴/۲۲۷)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۱۰/۲۲۸)۔
۲۲۸: اللہ تعالیٰ کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کرنا:
احکام الجنائز (۳۳۴/ ۲۲۸) تلخیص الجنائز (۱۱۰/ ۲۲۸)
۲۲۹: ان کا اپنے بال کاٹ کر قبر شریف کے قریب بڑی قندیل میں پھینکنا:
’’الإبداع فی مضار الإبتداع‘‘ (۱۶۶)، ’’الباعث‘‘ (۷۰)۔ ’’احکام الجنائز،، (۳۳۴/۲۲۹)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۱۰/۲۲۹)۔
۲۳۰: ا: قبر شریف [1] کو چھونا:
’’المدخل‘‘ (۱/۲۶۳)، ’’السنن‘‘ (۶۹)، ’’الإبداع‘‘ (۱۶۶)، ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۳۴/۲۳۰)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۱۰/۲۳۰)، ’’دفاع عن الحدیث النبوی‘‘ (ص۹۶۔۹۷)۔
۲۳۰/ب: قبروں کو چھونا: [2]
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۵۵۳۔۵۵۴) میں حدیث رقم (۳۷۳) کے تحت فرمایا:
متاخرین کے نزدیک اس حدیث[3] سے قبر کو چھونے کے جواز پر استدلال عام ہو چکا ہے، ابو ایوب کے اپنے چہرے کو قبر شریف پر رکھنے کی وجہ سے، اس کے باوجود کہ ان کا اسے چھونا تبرک کے لیے تھا دلالت میں صریح نہیں۔
|