مشابہت اختیار کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے، اسی لیے علامہ ابن الملک … وہ ہمارے حنفی علماء میں سے ہیں … نے ابن عباس کی مذکورہ روایت کی شرح میں بیان کیا:
’’ان پر مساجد بنانے کو حرام قرار دیا ہے، کیونکہ وہاں نماز پڑھنا یہود کے طریقے کی اتباع کرنا ہے۔‘‘ ملا علی قاری نے ’’المرقاۃ‘‘ (۱/ ۴۷۰) میں اسے نقل کیا ہے۔ جو کچھ بیان ہو چکا ہے اس میں اسے بھی شامل کر لینا چاہیے کہ قبروں پر بنائی گئی مساجد میں نماز بسا اوقات نماز پڑھنے والے کو یا عوام وجہلاء میں سے اس کی اقتدا کرنے والے کو بعض عبادات کو جو کہ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں میت کے لیے تخصیص تک پہنچا دیتی ہے، جیسے مدد طلب کرنا اور سجدے، جیسا کہ وہ قبروں پر بنائی گئی مساجد میں زیادہ تر ہوتا ہے، اور یہ چیز مشاہدے میں ہے، لہٰذا اس سے ممانعت سد ذریعہ کے لیے ہے، پس وہ تین مکروہ اوقات میں نماز پڑھنے سے ممانعت کی طرح ہے، بلکہ ان مساجد میں جو بگاڑ ہے، وہ ان اوقات میں نماز پڑھنے سے زیادہ واضح اور زیادہ ظاہر ہے، جیسا کہ حقیقت حال اس کی گواہی دیتی ہے۔‘‘
اور یہ سب اس شخص کے بارے میں ہے جس نے ان مساجد میں نماز پڑھنے کا قصد نہ کیا ہو، رہا قبر والے سے حصول برکت کی خاطر اس کا قصد کرنا اور عقیدہ رکھنا کہ وہاں نماز پڑھنا ان مساجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے جن میں قبر نہیں، تو یہ بعینہٖ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت ہے، اور یہ نماز جس نے اس کے باطل ہونے کے متعلق کہا ہے اس کے قول کے بالکل مطابق (باطل) ہے، جیسا کہ بعض علماء کے حوالے سے بیان آئے گا۔
اپنے دین میں بصیرت رکھنے والے مومن کو اس بات سے تعجب ہوگا کہ اکثر فقہاء اس اہم مسئلے کو خاطر میں نہیں لائے، وہ اس طرح کہ میری معلومات کے مطابق انہوں نے اپنی کتابوں اور اپنے فتاویٰ میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی لیے اس بارے میں حجت واضح ہو جانے پر مقلدین کی اس پر تسلی ہونا مشکل تھا، اور وہ کس طرح اسے اخذ کرتے جبکہ وہ یا ان میں سے اکثر امام کے قول کو … بلکہ اس کے کسی اتباع کرنے والے متاخرین میں سے کسی کے قول کو … اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر مقدم کرتے ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
اسی لیے میں نے اس مسئلے کے متعلق کسی خاص صورت میں محقق علماء کے بعض اقوال نقل کرنے کا ارادہ کیا، تاکہ ہماری اس کتاب کو پڑھنے والا جان لے کہ ہم نے دین میں کسی بدعت کو اپنی طرف سے بالکل بیان نہیں کیا، اور ہم سید المرسلین کی احادیث سمجھنے میں بھی پیچھے نہیں رہے، بلکہ وہ ﴿اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۴۷) ’’حق تیرے رب کی طرف سے ہے پس تم شک کرنے والوں سے نہ ہو۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے کو خاص اہمیت دی، اللہ انہیں تمام مسلمانوں کی طرف سے جزائے
|