اٹھارہ آثار اور حدیثیں بیان کی ہیں۔
پھر آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے (ص۹۸-۱۰۰) فرمایا:
جان لیجئے کہ یہ آثار اگرچہ ان کی دلالت مختلف ہے، لیکن وہ مجموعی طور پر ہر اس چیز کی ممانعت پر متفق ہیں جن سے قبروں کی تعظیم ظاہر ہوتی ہو اور اس سے فتنے اور گمراہی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے قبروں پر مساجد اور قبے
بنانا، ان پر خیمے نصب کرنا، انہیں شرعی حد سے زیادہ اونچا کرنا، ان کی طرف سفر کرنا [1] اور وہاں بار بار جانا اور انہیں چھونا اور ان پر ہاتھ پھیرنا، جیسے انبیاء علیہم السلام کے آثار سے برکت حاصل کرنا اور اس طرح کے دیگر امور، پس یہ سارے امور ان سلف کے نزدیک مشروع نہیں جنہیں ہم صحابہ وغیرھم کا نام دیتے ہیں، اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ سب قبروں پر مساجد بنانے اور ان کی غیر مشروع تعظیم بجا لانے کی ممانعت کی علت کے باقی ہونے کا موقف رکھتے تھے، آگاہ رہو وہ گمراہی اور فوت شدگان کے ذریعے کسی فتنے کا شکار ہونے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کی جیسا کہ بیان گزر چکا ہے، اس دلیل کے ساتھ کہ اس علت کے حکم معلول کے متعلق قول پر ان کا استمرار ہے، کیونکہ ان دونوں میں سے ایک کی بقاء دوسرے کی بقاء کو مستلزم ہے، جیسا کہ بالکل واضح ہے، اور یہ اس کی نسبت سے ہے جس نے ان میں سے قبروں پر مساجد بنانے کی کراہت کی تصریح ظاہر کی ہے، رہے وہ حضرات جنہوں نے اس کے علاوہ کسی اور چیز سے نہی کی صراحت کی ہے، مثلاً قبر کو اونچا بنانا اور اس پر خیمہ وغیرہ نصب کرنا اور اس طرح کا کوئی کام جسے ہم نے ابھی ذکر کیا، پس وہ حکم مذکور کے باقی رکھنے کو بدرجہ اولیٰ باقی رکھنا قرار دیتے ہیں، اور یہ دو وجہ سے ہے:
اوّل: یہ کہ قبروں پر مساجد بنانا قبروں کو اونچا بنانے اور ان پر خیمے نصب کرنے سے زیادہ جرم ہے، اس لیے کہ قبروں پر مساجد بنانے کے بارے میں لعنت وارد ہے، جبکہ انہیں اونچا بنانے اور ان پر خیمے نصب کرنے پر لعنت وارد نہیں۔
دوم: ان سلف میں فہم وعلم پایا جاتا ہے، تو جب ان میں سے کسی ایک سے کسی چیز کے بارے میں ممانعت ثابت ہو جائے وہ اس سے کم درجہ کی ہے جس سے شارع نے منع کیا ہے، اور وہ ممانعت ان میں سے کسی ایک سے منقول نہیں تو ہم قطعی طور پر کہیں گے کہ وہ بھی ممنوع ہے، حتیٰ کہ اگر فرض کر لیں کہ وہ ممانعت اس تک نہیں پہنچی، کیونکہ اس کی علاوہ چیز سے نہی بدرجہ اولیٰ لازم آتی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے۔
|