ائمہ اور علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے، حنفیہ کے اس میں تین اقوال ہیں:
۱: موت کے بعد تلقین کی جائے گی کیونکہ سائل کے لیے روح کو لوٹایا جاتا ہے۔
۲: تلقین نہیں کی جائے گی۔
۳: اس کا حکم دیا جائے گا نہ اس سے روکا جائے گا۔[1]
شافعیہ کے نزدیک تلقین کی جائے گی، جیسا کہ ابن حجر [2] نے ’’التحفۃ‘‘ میں بیان کیا:
’’بالغ عاقل یا مجنون کی تلقین مستحب ہے، تکلیف ذمہ داری، پابندی اس پر سبقت لے گئی، خواہ شہید ہو، جیسا کہ دفن کرنے کے بعد ان کا اطلاق اس کا تقاضا کرتا ہے، اس بارے میں ایک روایت ہے، اور اس کا ضعف شواہد کے ذریعے قوی ہو جائے گا، نیز یہ کہ وہ فضائل میں سے ہے، ابن عبدالسلام کا قول: کہ وہ بدعت ہے۔ زائل ہوگیا۔‘‘ انتہی [3]
ہمارے شیخ رحمہما اللہ نے اس جملے: ’’اس کا ضعف شواہد کے ذریعے قوی ہوگیا‘‘ کا ’’الآیات البینات’‘(ص۶۳) میں ردّ کرتے ہوئے فرمایا:
ہرگز نہیں، کیونکہ وہ شواہد جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ شہادت و گواہی کے لیے مناسب نہیں، کیونکہ وہ موقوف و مقطوع ہیں، اسی لیے ابن قیم نے بالجزم کہا کہ وہ صحیح نہیں، اور نووی ودیگر نے بھی کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے، میں نے اسے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ‘‘ (۵۹۹) میں ثابت کیا ہے۔
آپ ( رحمہ اللہ ) نے عزبن عبدالسلام رحمہ اللہ کے قول: کہ تلقین بدعت ہے کی تائید میں بیان کیا، جو کہ ’’الآیات البینات‘‘ ۶۳) پر ان کے حاشیے میں:
بلکہ ان کا قول درست ہے، کیونکہ تلقین اس کی حدیث کے ضعف کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہے، کیونکہ ثابت ہے کہ جب میت کو دفن کر دیا جاتا آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوتے اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرتے، اس کے لیے مغفرت طلب کرتے، اور حاضرین کو بھی اس کا حکم فرماتے، پس جو بھی اس کے خلاف ہو وہ بلا شک بدعت ہے، امام صنعانی نے اسے بالجزم کہا ہے، میں نے ’’احکام الجنائز‘‘ (ص۱۵۵-۱۵۶)[4] میں اس کے کچھ حصے کی تفصیل بیان کی ہے۔
|