بائیں دیکھنا:
’’الباعث‘‘ (۶۵)، ’’حاشیۃ ابن عابدین‘‘ (۱/ ۷۵۹)، ’’اصلاح المساجد‘‘ (۵۰)، ’’المنار‘‘ (۱۸/ ۵۵۸)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۵/ ۴۵)۔
۴۶: خطیب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کے وقت منبر کے ایک زینے پر چڑھنا اور پھر اس سے فارغ ہونے کے بعد وہاں سے اترنا:
’’الباعث‘‘ (۶۵)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۵/ ۴۶)۔
۴۷: خطباء کا اپنے اشعار اور اپنے خطبوں میں مسجع کلام اور بات کو تین تین‘ چار چار اور پانچ پانچ بار کہنے کی پابندی کرنا۔ حالانکہ مسجع کلام کے بارے میں ’’الصحیح‘‘ میں ممانعت وارد ہے:
’’السنن‘‘ (۷۰)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۵/ ۴۷)۔
۴۸: بہت سے خطباء کا اس حدیث کو بیان کرنے کی پابندی کرنا:
’’اللہ عزوجل رمضان کی ہر رات چھ لاکھ افراد کو جہنم سے آزادی عطا کرتا ہے۔ پس جب آخری رات ہوتی ہے تو اللہ اتنے افراد کو جہنم سے آزادی عطا کرتا ہے جتنے افراد کو اس سے پہلے جہنم سے آزاد کرچکا ہوتا ہے۔‘‘ وہ اس روایت کو رمضان کے آخری جمعہ میں‘ یا عید الفطر کے خطبے میں بیان کرتے ہیں، حالانکہ وہ روایت باطل ہے۔[1]
’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۵/ ۴۸)۔
۴۹: جمعہ کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو تو تحیۃ المسجد ترک کر دینا:
’’المحلی‘‘ لابن حزم (۵/ ۶۹)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۶/ ۴۹)۔
۵۰: بعض خطباء کا اپنے خطبوں کو قطع کر دینا‘ تاکہ وہ مسجد میں آکر تحیۃ المسجد پڑھنے والے کو اسے ترک کر دینے کا حکم دیں‘ حالانکہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث اور آپ کے اس کے متعلق حکم کے خلاف ہے: [2]
’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۶/ ۵۰)۔
۵۱: دوسرے خطبے کو وعظ وارشاد‘ تذکیر وترغیب سے عاری (خالی) قرار دینا، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ اور دعا کے لیے مخصوص کرنا:
’’السنن‘‘ (۵۶)، ’’نورالبیان فی الکشف عن بدع آخر الزمان‘‘ (۴۴۵)، ’’الاجوبۃ‘‘
|