منبر پر کھڑا ہو یا اس کے سامنے منبر کے آگے کھڑا ہو‘‘۔
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے قاسمی کے سابق کلام پر یوں تبصرہ کیا: ’’میں نے کہا: بلکہ یہ بھی بدعت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، مسجد کے اوپر، ایک ہی اذان ہوتی تھی، جیسا کہ میں نے اسے ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۲۸- ۳۱- ط۔ المعارف) میں بیان کیا۔
۳۱: بعض مساجد میں خطیب کے سامنے دو مؤذنوں کا موجود ہونا، ان دونوں میں سے ایک منبر کے آگے کھڑا ہوتا ہے، جبکہ دوسرا دروازے پر یا برآمدے میں، پہلا الفاظ اذان سکھاتا ہے‘ پہلا اس جملے کو پست آواز سے پڑھتا ہے‘ پھر دوسرا اسے بلند آواز سے پڑھتا ہے:
’’اصلاح المساجد عن البدع والعوائد‘‘ (۱۴۳)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۳/ ۳۱)۔
۳۲: خطیب جب خطبہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو مؤذنین کے رئیس کا لوگوں سے اس طرح کہنا: لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’جب تم نے اپنے ساتھی سے‘ جب کہ امام جمعہ کے دن خطبہ دے رہا ہو‘ کہا: خاموش ہوجا! تو تم نے لغو کام کیا‘‘ اللہ تم پر رحم کرے خاموش ہو جاؤ:
’’المدخل‘‘ (۲/ ۲۶۸)، ’’السنن والمبتدعات‘‘ (۲۴)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۲/ ۳۲)۔
۳۳: جب خطیب پہلا خطبہ دے کر بیٹھے تو کسی مؤذن کا یوں کہنا: اللہ آپ کی اور آپ کے والدین کی‘ ہماری‘ ہمارے والدین اور حاضرین کی مغفرت فرمائے:
’’فتاوٰی ابن تیمیۃ‘‘ (۱/ ۱۲۹)، ’’اصلاح المساجد‘‘ (۷۵- ۷۶)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۳۳/ ۳۲)۔
۳۴: جمعہ کے خطبہ میں خطیب کا تلوار پر ٹیک لگانا:
’’السنن والمبتدعات‘‘ (۵۵)،[1] ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۳/ ۳۴)۔
۳۵: طلب شفاء کے لئے جمعہ کے دن منبر کے نیچے بیٹھنا جبکہ خطیب خطبہ دے رہا ہو:
’’المنار‘‘ (۷/ ۵۰۱۔ ۵۰۳)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۲۳/ ۳۵)۔
۳۶: خطباء کا خطبہ حاجت سے اعراض: ’’ان الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ…‘‘ اور اپنے
|