تشریف لائے؟ میں نے کہا: اگر ایسے ہوا ہوتا تو آپ کی ازواج مطہرات اسے نقل کرتیں، جیسا کہ انہوں نے آپ کی گھر میں رات اور دن کے وقت پڑھی گئی نمازیں ذکر کیں، انہوں نے آپ کی تہجد اور آپ کے قیام اللیل کی کیفیت ذکر کی، اور جب اس میں سے کچھ بھی منقول نہیں تو پھر اس کی بنیاد کا معدوم ہونا ہے، اور اس پر دلالت ہے کہ وہ کام نہیں ہوا اور یہ کہ وہ غیر مشروع ہے۔‘‘
پھر آپ رحمہ اللہ نے مصدر سابق (ص۵۱۔۵۲) میں بیان کیا:
۴۔ بے شک وہ عموم جس کا اس نے اس حدیث میں دعویٰ کیا ہے، جس کی طرف اس نے اشارہ کیا ہے وہ سنت مطہرہ کی کتب میں وارد اس کی نص میں غور و فکر کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحیح نہیں، بلکہ وہ نماز ظہر کے ساتھ خاص ہے، اور اس نے اس میں دوسری غلطی کی ہے جو اس سے اس حدیث کو اس جگہ نقل کرنے کے بارے میں ہوئی ہے جس کی طرف اس نے اشارہ کیا ہے اور اس پر توجہ کی ہے، اس نے اس (۱/۳۱۷) میں کہا:
’’ابوداؤد نے اسے اپنی ’’السنن‘‘ میں اور الترمذی نے ابوایوب انصاری کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’الشمائل‘‘ میں نقل کیا، آپ نے فرمایا:
’’چار ظہر سے پہلے، ان میں سلام نہیں ہے، ان کی خاطر آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘
اسے عبیدہ بن معتب ضبی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا…
اور وہ عموم جو بیان ہوا کہ اس نے اس کی طرف اشارہ کیا وہ یہ قول ہے:
’’آپ سورج ڈھلنے پر چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اور صحیح یہ ہے کہ یہ عموم ہے، یہ جمعہ کے سورج ڈھلنے کو شامل ہے، جس طرح وہ ظہر کے سورج ڈھلنے کو شامل ہے لیکن اس لفظ شامل کے ساتھ اس کا نقل کرنا صحیح نہیں، کیونکہ اس کا ’’مؤطا محمد‘‘ (ص۱۵۸) میں سیاق اس طرح ہے:
’’آپ ظہر سے پہلے جب سورج ڈھل جاتا تھا چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘ (الحدیث)
الزیلعی نے ’’الموطا‘‘ کے حوالے سے ’’نصب الرایۃ‘‘ (۲/۱۴۲) میں اسے اس طرح نقل کیا ہے اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نماز ظہر اور اس کے زوال کے ساتھ خاص ہے، تو وہ اس کے حق میں حجت نہیں بلکہ اس کے خلاف حجت ہے۔
اور اس حدیث کے مثل، بلکہ اس سے بھی زیادہ صریح، عبد اللہ بن سائب کی روایت ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور آپ نے فرمایا: یہ وہ گھڑی ہے جس میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ اس گھڑی
|