Maktaba Wahhabi

452 - 756
کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا: وہ ان شاء اللہ اس کو کفایت کرجائے گی۔ انہوں نے قبول کو مشیئت پر معلق کیا۔ بہرحال! جو میں سمجھتا ہوں کہ اس کو روزے پر قیاس کرنا ان بہت سے امور سے قیاس کرنے سے کم نہیں جن پر فقہاء نے قیاس کیا ہے، جس طرح روزے کے لیے فدیہ ہے، اسی طرح اس میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ وہ فدیہ دے اور جو نمازیں نہیں پڑھیں ان کا کفارہ ادا کرے، خاص طور پر جبکہ اس میں فقراء کے لیے ہمدردی ہے اور وہ مقصود بالذات ہے، لہٰذا ولی کے لیے کافی ہے کہ وہ فقراء سے جو چاہے جمع کرے اور انہیں ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو اناج) یا اس کی قیمت یا اس سے زائد دے اور وہ اس کی دل میں اس طرح نیت کرے جیسا کہ زکوٰۃ میں ہے، پس انہوں نے کہا: کہ وہ اسے فقیر کو دے گا۔ دل سے جو اس پر فرض ہے اس کی ادائیگی کی نیت کرے گا، رہی یہ حالت معروف جو تھیلی کو بار بار گھمانا ہے اور ولی کے یا اس کے وکیل کی طرف سے بلند آواز سے فقیر کو کہنا: لو یہ نماز کا کفارہ ہے۔ اس میں زکوٰۃ اور کفاروں کی ادائیگی کے اصول میں خرابی ہے، کیونکہ فقیروں کو دیتے وقت چھپانا مطلوب ہے۔ اسے چھپا کر دینا نہ کہ علانیہ اور اس کی عزت نفس اور اس کے جذبات کو مجروح کرنا مقصود نہیں۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں جو اس جگہ کی سمجھ سے متعلق ہے اور اس میں اس کے درمیان جو محدثین اور دوسرے مذاہب کے بقیہ فقہاء کہتے ہیں کہ وہ بدعت ہے اسے ترک کردینا چاہیے اور وہ فقراء[1] کو نہ دینے کے لیے کوشش کرتا ہے اور اس شخص کے درمیان جمع کی صورت ہے جو اسے معروف کیفیت پر گھماتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ بس اسی طرح ہی جائز ہے۔ اس سے اس کے مقلدین کی خالص تقلید کے جمود پر دلالت ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی امام متبوع سے وارد نہیں، اور انہوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ مقلد کی تقلید نہیں کی جاتی۔ اور بالجملہ اسے زکوٰۃ کے ساتھ الحاق کرنا مناسب ہے اور اس میں اس کی ادائیگی کے آداب بجا لائے جائیں۔ واللہ الھادی۔
Flag Counter