Maktaba Wahhabi

451 - 756
جس پر عمل ہو رہا ہے وہ قطعاً غیر ماثور ہے، بعض ائمہ نے روزے، قسم اور نذر کے کفارے پر قیاس کرتے ہوئے اس کی اجازت دی ہے، لیکن چونکہ اس میں فقراء کا فائدہ ہے اور صدقہ پر آمادگی ہے تو اس کے عمل میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ مؤلف رحمہ اللہ کی رائے ہے، ہم اسے درست نہیں سمجھتے جب تک وہ سلف سے ماثور نہ ہو جبکہ ہر قسم کی خیر ان کی اتباع میں ہے، بہتر تو اسے ترک کرنا ہے جیسا کہ اس سلفی نے کہا، بلکہ واجب ہے کیونکہ کسی ایسی چیز کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنا جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشروع قرار نہ دیا ہو بہت بڑی گمراہی ہے اور اس کو صرف اس لیے مستحسن قرار دینا کہ وہ فقیر کے لیے نفع مند ہے یہ کسی سلفی سے صادر ہونے والی انتہائی عجیب و غریب بات ہے، جیسا کہ مؤلف ہے، اللہ ہم سے اور اس سے درگزر فرمائے، اس کی مثل اس پر مخفی نہیں، غایت وسیلے کو جائز قرار نہیں دیتی، اور مجھے خیال آتا ہے کہ مؤلف رحمہ اللہ کی فقراء پر ہمدردی اس پر غالب رہی، وہ اس (مؤلف) کے اور اپنی اس رائے کی خطا واضح کرنے کے درمیان حائل ہوگئی، وہ ہر حال میں ماجور ہیں، واللّٰہ المستعان۔‘‘ اور قاسمی رحمہ اللہ نے ’’إصلاح المساجد‘‘ (ص۲۴۹۔۲۵۰) میں بیان کیا: ان میں سے تیسرا: معروف کیفیت سے نماز کو ساقط کرنے کے مسئلے کے بارے میں متاخرین فقہاء احناف[1] نے کہا: نماز کو ساقط کرنا، اگرچہ اس کی کتاب و سنت میں کوئی اصل نہ ہو، وہ مشائخ کے استحسان کے مطابق احتیاطی امر ہے، جیسا کہ روزہ میں وارث اسے اپنی مرضی سے انجام دے، انہوں نے کہا: اس میں واجب ہے کہ فقیر کو ہر فرض کے عوض نصف صاع (تقریباً سوا کلو اناج)، یا اس کی قیمت دے۔ میں کہتا ہوں: تب اس نے اپنی عمر میں جتنی نمازیں چھوڑی ہیں احتیاطاً اسی مقدار کا حساب لگایا جائے گا اور اگر وہ مال دار شخص ہے تو اس نے جو چھوڑا ہے اس سبب سے (کفارہ) نکالا جائے گا اور اگر وہ اس پر قادر نہ ہو تو اس سے جو ممکن ہو وہ نکالا جائے گا، رہا اسے ولی یا اس کے وکیل اور فقیر کے درمیان بار بار ہبہ کرنا تو اس کی کوئی حاجت ہے نہ کوئی معنی، کیونکہ فقراء کو گندم یا درہموں میں سے، جو میسر ہو، دینے کا مقصد کفارہ ہے، آدمی کو اس کی استطاعت کے مطابق ہی مکلف ٹھہرایا جاتا ہے، جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے اس کا مکلف نہیں ٹھہرایا جاتا کہ وہ اس پر کوئی حیلہ سازی کرے، خاص طور پر اس امر میں جس پر کوئی نص نہیں اور اس کا امر امید پر ہے۔ جیسا کہ امام محمد سے روایت
Flag Counter