بدیہی طور پر گواہی دیتی ہے، پس میں نے ان کے السید عبدالرضا! مرعشی شہر ستانی کے ’’السجود علی التربۃ الحسینیۃ‘‘ کے عنوان پر ایک رسالے پر آگاہی حاصل کی، اس کے ص۱۵ پر لکھا ہے:
’’اور اس کے شرف وتقدس اور وہاں مدفون شخصیت کی پاکیزگی کے باعث اس (خاک کربلا) پر سجدہ کرنے کی فضیلت وارد ہے۔ عترت طاہرہ کے ائمہ علیہم السلام سے حدیث وارد ہے کہ اس پر سجدہ کرنا ساتویں زمین تک کو روشن کر دیتا ہے، اور ایک دوسری روایت میں ہے: وہ سات پردوں کو چاک کر دیتا ہے، ایک اور روایت میں ہے: جو اس پر سجدہ کرتا ہے اللہ صرف اسی کی نماز کو قبول کرتا ہے اور جو اس کے علاوہ کسی اور خاک/ جگہ پر سجدہ کرتا ہے وہ اسے قبول نہیں کرتا، ایک اور میں ہے: حسین کی قبر کی مٹی پر سجدہ کرنا زمینوں کو منور کر دیتا ہے۔‘‘
اس طرح کی احادیث ہمارے نزدیک بالکل باطل ہیں، اور اہل بیت کے ائمہ رضی اللہ عنہم ان سے بری ہیں، ان کے پاس ان کی اسانید نہیں، تا کہ حدیث کے علم اور اس کے اصول کے نہج پر ان پر جرح و تنقید کرنا ممکن ہو، وہ تو مرسل اور معضل روایات ہیں!
مؤلف نے صرف ائمہ اہل بیت سے ان جیسی نقول مزعومہ ہی سے رسالے کو کالا کرنے پر اکتفانہیں کیا بلکہ وہ قارئین کو وہم ڈالنے لگا کہ اسی طرح کی روایات ہم اہل السنہ کی کتب میں بھی مروی ہیں، وہ (ص۱۹) بیان کرتا ہے:
’’اس تربت حسینیہ کی فضیلت اور اس کی پاکی و برکت کے متعلق روایات صرف ائمہ علیہم السلام ہی پر منحصر نہیں، بلکہ اس طرح کی روایات باقی اسلامی فرقوں کی اصل کتابوں میں بھی بہت مشہور ہیں، جو کہ ان کے علماء اور ان کے راویوں کے طریق سے ہیں، ان میں سے وہ روایت ہے جسے سیوطی نے اپنی کتاب ’’الخصائص الکبری‘‘، باب اخبار النبی صلي الله عليه وسلم بقتل الحسین علیہ السلام میں روایت کی ہے، انہوں نے اس میں اپنے اکابر ثقہ سے تقریباً بیس احادیث روایت کی ہیں، وہ اکابر ثقہ جیسے حاکم، بیہقی، ابو نعیم، طبرانی [1] اور ہیثمی ’’المجمع‘‘ (۹:۱۹۱) میں اور ان جیسے ان کے مشہور راویوں سے مروی ہیں۔‘‘
اے مسلم! (جان لیجیے کہ وہ سیوطی اور ہیثمی کے نزدیک نہیں ہے، ایک حدیث بھی تربت حسینی اور اس کے تقدس اور اس کی فضیلت پر دلالت نہیں کرتی، ان میں جو کچھ ہے اس کی تفصیلات اس پر متفق ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کی اس جگہ شہادت کے متعلق خبر ہے، میں نے ’’الصحیحۃ‘‘ میں ابھی ان میں سے ایک منتخب چیز بیان کی، تو کیا تم اس میں وہ چیز دیکھتے ہو جس کا اس شیعہ نے سیوطی اور ہیثمی کے بارے میں اپنے رسالے میں دعویٰ کیا ہے؟!
|