اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ دوسری اذان میں تثویب بدعت ہے خلاف سنت ہے۔ اور یہ مخالفت بڑھ جاتی ہے جس وقت وہ اذان اوّل سے کلی طور پر اعراض کرتے ہیں، اور دوسری اذان میں تثویب پر اصرار کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے کس قدر حق دار ہیں:
﴿اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ﴾ (البقرۃ: ۶۱)
’’کیا تم بہتر چیز کے بدلے میں ادنی چیز لینا چاہتے ہو۔‘‘
﴿لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۰۲)
’’کاش وہ جانتے ہوتے۔‘‘
فائدہ…: طحاوی نے اذان اوّل میں تثویب کے بارے میں ابو محذورہ اور ابن عمر کی بیان کردہ دو صریح حدیثیں ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’اور وہ ابو حنیفہ اور ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔‘‘
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب و الترھیب‘‘ (۱/۲۱۶۔ ط ۔ المعارف) میں بیان کیا:
’’اس تثویب میں سنت صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ فجر کی نماز میں اذان اوّل کے ساتھ خاص ہے۔ اور اسے زیادہ تر مؤذنوں نے چھوڑ رکھا ہے جو کہ قابل افسوس ہے، حتی کہ حرمین شریفین میں، بعض اسلامی ممالک میں اس جیسی سنتوں کے احیاء کے سبب ہمارے سلفی بھائیوں کی جماعت آزمائش کا شکار ہوئی، اس دور کے احوال، اور اس میں انصار السنۃ کی قلت کے بارے میں اللہ کے حضور شکایت کی جاتی ہے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے، کچھ تصرف و تبدیلی کے ساتھ، ’’المشکاۃ‘‘ (۱/۲۰۴)[1] میں بیان کیا:
تثویب صرف فجر کی اذان اوّل ہی میں ہے، وہ اس کے علاوہ کسی اور میں مشروع نہیں۔
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے غزالی کی ’’فقہ السیرۃ‘‘ کی تخریج (ص۲۰۱۔ ط۔ الأولی۔ دار الریان) میں بیان کیا:
فقیہ پر مخفی نہیں رہتا کہ بلال رضی اللہ عنہ فجر کی اذان اوّل دیا کرتے تھے، تو جب ہم نے اسے اس کے ساتھ ملایا جو بیان ہو چکا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سنت یہ ہے کہ ’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ پہلی اذان میں کہا جائے نہ کہ دوسری اذان میں، اوریہ نص کے مطابق ہے، ابن عمر نے بیان کیا: اذان اوّل میں ’’حی علی الفلاح‘‘ کے بعد تھا: ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘، الصلاۃ خیر من النوم‘‘ طحاوی (۱/۸۲) ودیگر نے اسے حسن سند کے ساتھ روایت کیا جیسا کہ حافظ رحمہ اللہ نے ’’التلخیص‘‘ (۳/۱۶۹) میں بیان کیا۔
|