حسن ہے جیسا کہ حافظ نے فرمایا۔ اور ابومحذورہ کی روایت مطلق ہے، وہ دو اذانوں کو شامل ہے، لیکن دوسری اذان مراد نہیں، کیونکہ وہ دوسری روایت میں ان الفاظ کے ساتھ مقید بیان ہوئی ہے: ’’جب تم صبح کی اذان اوّل دو تو کہو: الصلاۃ خیر من النوم، الصلاۃ خیر من النوم۔‘‘ اسے ابو داؤد، نسائی اور طحاوی ودیگر نے نقل کیا ہے۔ یہ روایت ’’صحیح سنن ابی داوٗد‘‘ (۵۱۰۔۵۱۶) میں منقول ہے، پس ان کی روایت ابن عمر کی روایت سے متفق ہے، اسی لیے صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ (۱/۱۶۷۔۱۶۸) میں نسائی کے الفاظ کے بعد بیان کیا:
’’اس میں اس کے لیے تقیید ہے جسے روایات نے مطلق بیان کیا۔ ابن رسلان نے کہا: ابن خزیمہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا۔ انہوں نے کہا: پس ’’ الصلوۃ خیر من النوم‘‘ کہنے کی مشروعیت فجر کی پہلی اذان ہی میں ہے، کیونکہ وہ سونے والے کو بیدار کرنے کے لیے ہے، رہی دوسری اذان تو وہ وقت شروع ہونے کے متعلق اعلان ہے، اور نماز کی طرف دعوت و پکار ہے۔[1] یہ ’’تخریج الزرکشی لأحادیث الرافعی‘‘ سے ہے۔ اسی کے مثل ’’سنن البیہقی الکبری‘‘ میں ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے ہے: کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے فجر کی اذان اوّل میں ’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ کہا کرتے تھے۔
میں نے کہا: یہ ’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ نمازکی طرف بلانے اور اس کے وقت شروع ہونے کی اطلاع دینے کے لیے مشروع اذان کے الفاظ میں سے نہیں، بلکہ وہ ان الفاظ میں سے ہیں جو سونے والے کو جگانے کے لیے مشروع کیے گئے، پس وہ تسبیح اخیر کے الفاظ کی طرح ہے جسے اس بعد کے دور والوں نے اذان اوّل کے عوض میں معمول بنا لیا ہے۔
میں نے کہا: میں نے اس مسئلے پر کلام طویل کر دیا۔ اس لیے کہ اسلامی ممالک میں بہت سے مؤذنوں کا اس بارے میں خلاف سنت معمول بن گیا ہے، نیز بہت کم مؤلفین نے اس کی صراحت کی ہے، کیونکہ ان میں سے جمہور اس بارے میں اجمالی طور پر بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، اور وہ یہ بیان نہیں کرتے کہ وہ (تثویب) فجر کی اذان اوّل میں ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی صراحت آتی ہے، ابن رسلان اور صنعانی کے بیان متقدم کے برعکس (کیونکہ ان دونوں نے صراحت کی ہے) جزاھما اللہ خیرا۔
|