متعدد روایات سے اسے بیان کیا ہے۔‘‘
اور عنقریب وہ حدیث رقم (۵۴۵۳) کچھ اضافے [1] کے ساتھ آئے گی:
شیخ عبدالرحمن بن محمد بن قاسم حنبلی نے اپنے رسالے ’’اعفاء اللحی و قص الشارب‘‘ (ص۱۴) میں بیان کیا:
’’بعض اہل علم نے ابن عمر کے فعل کو دلیل بنا کر مٹھی سے زائد داڑھی کترنے کی رخصت دی ہے۔‘‘
انہوں نے اس پر تبصرہ کیا، تو کہا:
’’دلیل ان کی روایت میں ہے نہ کہ ان کی رائے میں، اور کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور آپ کا فعل ان کے علاوہ کسی کے قول یا فعل سے اتباع کا زیادہ حق دار ہے! خواہ وہ کوئی بھی ہو!‘‘
ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۱/۷۸۵۔ ۷۸۶) میں حدیث رقم (۵۴۵۳) کے تحت شیخ عبدالرحمن بن محمد، جن کا پہلے ذکر ہوا، کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
ہاں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن عمر کے درمیان مخالفت قرار دینا غلطی ہے! اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں کہ آپ اپنی داڑھی نہیں کترتے تھے، اور آپ کا فرمان:
’’وفروا اللحی‘‘ ممکن ہے کہ وہ اپنے اطلاق پر نہ ہو، تو ابن عمر کا فعل آپ کے مخالف نہ ہو گا، یہ اختلاف صرف علماء کے درمیان نص کی فہم کے بارے میں ہے، ابن عمر۔ اس کے راوی ہونے کے اعتبار سے۔ ممکن ہے کہا جائے: راوی اپنی روایت کے بارے میں کسی دوسرے کی نسبت زیادہ جاننے والا ہوتا ہے، خاص طور پر جب ان کے اس (داڑھی) کترنے پر بعض سلف نے ان کی موافقت کی ہے، جیسا کہ بیان ہوا، ہمارے علم کے مطابق ان میں سے کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی، واللہ اعلم۔
پھر مجھے ایک اہم روایت پر آگاہی ہوئی جو داڑھی کترنے کی تائید کرتی ہے، وہ سلف سے مروی ہے، امام بیہقی نے ’’شعب الإیمان‘‘ (۲/۲۶۳/۱) میں روایت کیا: ابو طاہر الفقیہ نے بیان کیا، ابو عثمان بصری نے ہمیں بیان کیا، حدثنا محمد بن عبدالوھاب، اخبرنا یعلی بن عبید، حدثنا سفیان عن منصور، عن ابراہیم، انہوں نے کہا:
’’وہ اس یعنی: داڑھی کو اس کے جوانب سے کترتے تھے اور اسے صاف ستھری رکھتے تھے۔‘‘
میں نے کہا: یہ اسناد جید (اچھی) ہے، بصری سے اوپر سارے راوی ثقہ ہیں اور وہ ’’التھذیب‘‘ کے رجال میں سے ہیں …
|