Maktaba Wahhabi

377 - 756
میں نے کہا: الخلال نے ان دونوں سے ’’الترجل‘‘ (ص۱۱۔ فوٹو کاپی) میں دو صحیح اسناد سے نقل کیا ہے، اور امام احمد سے مروی ہے۔ کہ ان سے داڑھی کترنے کے متعلق پوچھا گیا؟ تو انہوں نے فرمایا: ابن عمر مٹھی سے زائد داڑھی کو کتر دیا کرتے تھے، گویا کہ انہوں نے اسے اختیار کیا ہے۔ حرب نے بیان کیا: میں نے انہیں کہا: ’’الاعفاء‘‘ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، انہوں نے کہا: ان کے نزدیک یہ اعفاء تھا۔ میں نے کہا: یہ بات معلوم ہے کہ راوی اپنی روایت کے بارے میں کسی دوسرے کی نسبت زیادہ جانتا ہے، خاص طور پر جب کہ وہ سنت پر عمل کرنے کے لیے بہت زیادہ کوشاں ہو، جیسا کہ ابن عمر ہیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم –– اعفاء کا حکم دینے والے –– کو رات دن دیکھتے تھے! غور کریں۔ پھر الخلال نے اسحاق کے طریق سے روایت کیا، انہوں نے کہا: ’’میں نے احمد سے داڑھی کترنے والے شخص کے متعلق دریافت کیا؟ انہوں نے کہا: وہ مٹھی سے زائد داڑھی کترتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: (( احفوا الشوارب، واعفوا اللحی؟))…’’مونچھیں کترو، اور داڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’وہ اسے اس کے طول سے اور اپنے حلق کے نیچے سے کترتے تھے، اور میں نے ابو عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ داڑھی کو اس کے طول سے اور اپنے حلق کے نیچے سے کترتے تھے۔‘‘ میں نے کہا: میں نے بعض سلف اور ائمہ سے ان نصوص کے ذکر کرنے میں ان کی تقویت کی خاطر تھوڑی سی وسعت پیدا کر دی ہے، اور بہت سے لوگوں کے گمان کی وجہ سے کہ وہ (داڑھی کترنا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’واعفوا اللحی‘‘ ’’داڑھیاں بڑھاؤ‘‘ کے عموم کے خلاف ہے، انہیں اس قاعدے کی خبر نہ ہوئی کہ عموم کے افراد میں سے فرد (جز) جب اس پر عمل نہ ہو، تو یہ اس پر دلیل ہے کہ اس سے وہ مراد نہیں ہے۔ زیادہ تر بدعات جنہیں امام شاطبی نے ’’بدعات اضافیہ‘‘ کا نام دیا ہے وہ اس قبیل سے ہیں، اس کے باوجود وہ اہل علم کے نزدیک مردود ہیں! کیونکہ وہ سلف کے عمل میں سے نہ تھیں، جبکہ وہ بعد والوں سے زیادہ متقی اور زیادہ جاننے والے تھے، پس اس کے لیے انتباہ کی امید ہے، کیونکہ معاملہ باریک اور اہم ہے۔ ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۸/۴۵۷) میں حدیث رقم (۳۹۹۰)[1] کے تحت بیان کیا: ’’سلف کی ایک جماعت سے مٹھی سے زائد داڑھی کترنا ثابت ہوا، جیسا کہ میں نے کئی مقامات پر
Flag Counter