جاتے ہیں! اور وہ ہے عقیدے سے متعلق امور میں صرف قرآن پر اکتفا کرنا۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (ص۵۴۔۵۵) میں جابر کی روایت فقرہ(۱۴) پر تشریح کرتے ہوئے بیان کیا: اور روایت یہ ہے: ’’…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے اور آپ پر قرآن نازل ہوتا تھا، آپ اس کی تفسیر جانتے تھے، آپ نے جس پر عمل کیا ہم نے بھی اس پر عمل کیا!‘‘
اس میں اس طرف لطیف اشارہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو قرآن نازل ہوتا تھا اسے آپ ہی صحابہ کو بیان فرماتے تھے، کیونکہ آپ اکیلے ہی تھے جو اس کی حق معرفت کے طور پر تفسیر جانتے تھے، جبکہ آپ کے علاوہ … حتی کہ صحابہ میں سے … کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، اسی لیے صحابہ رضی اللہ عنہم ۔ دیگر عبادات کی طرح … اس حج میں بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے تھے، جس پر آپ نے عمل کیا انہوں نے بھی اس پر عمل کیا، تو اس میں لوگوں کے دونوں گروہوں پر واضح رد ہے۔[1]
ایک گروہ اپنے آپ کو ’اہل قرآن‘ کہتا ہے، جبکہ قرآن ان سے بری ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن سمجھنے کے لیے انہیں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کی کوئی ضرورت نہیں، اور اس میں عربی لغت اور اس کے آداب کی معرفت کافی ہے، حالانکہ یہ چیز (عربی لغت کی معرفت) جابر کو کافی ہوئی نہ ان کے ساتھیوں کو جیسا کہ مجھے معلوم ہے، جبکہ وہ خالص عرب تھے، قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا، جبکہ یہ گروہ سارے کا سارا یا ان میں سے زیادہ تر عجمی ہیں، ان کے زعم مذکور کا نتیجہ ہے کہ وہ اسلام سے نکل گئے اور وہ ایک نیا دین لے آئے، ان کی نماز ہماری نماز کے علاوہ، ان کا حج ہمارے حج سے الگ، ان کا روزہ وہ نہیں جو ہمارا روزہ ہے، میں نہیں جانتا، ہو سکتا ہے ان کی توحید بھی ہماری توحید سے مختلف ہو، یہ لوگ ہندوستان میں ظاہر ہوئے، پھر ان کا فتنہ مصر اور شام تک پہنچ گیا، میں نے ’’الدین‘‘ کے نام سے ان کی ایک کتاب پڑھی تھی، اس پر اس کے مؤلف کا نام نہیں، جو اسے پڑھے گا وہ ان کی گمراہیوں اور ان کے دین سے خروج کے متعلق جان لے گا۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنے رسالے، ’’منزلۃ السنۃ فی الاسلام‘‘ (ص۱۰۔۱۱) میں فصل ’’ضلال المستغنین بالقراٰن عن السنۃ‘‘ (قرآن کے ذریعے سنت سے بے نیازی برتنے والوں کی گمراہی) کے تحت بیان کیا:
بلکہ دور حاضر میں ایک گروہ پایا جاتا ہے جو اہل قرآن نام رکھتے ہیں وہ قرآن کی اپنی خواہشات اور اپنی عقل کے ذریعے تفسیر کرتے ہیں، وہ اس پر سنت صحیحہ سے مدد حاصل نہیں کرتے، بلکہ ان کے ہاں سنت ان کی خواہشات کے تابع ہے، پس ان میں سے جو ان سے موافقت رکھے وہ اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں، اور ان میں سے جو ان
|