ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۷۱۳۔۷۱۵) میں حدیث رقم (۴۹۶۹)[1] کے تحت بیان کیا:
میں نے کہا: یہ موضوع روایات عبدالحسین الشیعی نے (حسب عادت) سیدہ عائشہ کی روایت کی مخالفت میں ان سے مخالفت کی وجہ سے استدلال کرنے سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی! اس نے یہ عنوان قائم کیا: ’’الصحاح المعارضۃ لدعوی ام المومنین‘‘ (ص۲۴۷۔۲۵۲)! اور اس نے ابن سعد کے علاوہ کسی اور کی طرف اسے منسوب نہیں کیا، اور اس کا سارا مدار –– جیسا کہ آپ نے دیکھا –– جھوٹے واقدی پر ہے، مزید برآں کہ وہ اس سے جو اس سے اوپر ہے سلامت نہیں ہے۔
شیعی نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ’’نہج البلاغۃ‘‘ میں اور ابن ابو الحدید معتزلی نے جو اس کی شرح کی، اس میں جو بیان ہوا اس سے بھی استدلال کیا ہے۔
اس نے ام سلمہ کی روایت جو کہ حدیث رقم (۴۹۴۵)[2] کے تحت بیان ہوئی اس سے استدلال کو اس کے ساتھ ملا دیا! اور اس کا ان کی روایت کو۔ جبکہ وہ ضعیف ہے جیسا کہ بیان ہوا۔ عائشہ کی روایت پر مقدم کرنا جو کہ بہت سے صحیح طرق سے مروی ہے! پھر اس نے اسے اس پر طعن کی وجہ سے اور اس کے بعض ایسے امور سے چشم پوشی کرتے ہوئے جو کہ اس سے ثابت ہیں ان کی روایت پر ترجیح دی، ان میں سے کچھ ایسے امور ہیں جو انبیاء معصومین کے علاوہ دیگر کے لیے لازم ہیں جیسا کہ ان کا جنگ جمل میں شریک ہونا، جبکہ انہوں نے اس سے توبہ کی، اور کچھ امور ہیں جن کی وجہ سے ان پر کوئی عیب نہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی سمت میں نماز پڑھنا جبکہ وہ اپنے پاؤں دراز کیے ہوئی تھیں! اور کچھ ایسے امور ہیں جن کا ان کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں، اس بارے میں وہ صرف کتب تاریخ پر اعتماد کرتا ہے جو ہر اچھے برے کو روایت کرتی ہیں، خاص طور پر ابن ابو الحدید معتزلی کی ’’شرح نہج البلاغۃ‘‘ اس کے علاوہ بھی امور ہیں جن پر بحث و تنقید کی وجہ سے کلام لمبا ہو جائے گا، اس پر مفصل کلام کی طرف ہمت رخ نہیں کرتی۔
لیکن ان میں سے ایک امر پر کلام لازمی ہے! جس شخص کے پاس حدیث کے طرق اور اس کے الفاظ کا علم نہ ہواس پر وہ امر پیچیدہ ہو جاتا ہے، اور وہ شخص جو اس شیعی کے مکرو فریب، اس کے خبث وگمراہی، اس کے اہل السنہ پر عام طور پر اور ام المومنین صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہا پر خاص طور پر طعن کرنے سے واقف نہیں ہوتا، (وہ شخص الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے)، وہ عبداللہ بن عمرسے مروی صحیح بخاری کی روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ نے عائشہ کے مسکن (حجرے) کی طرف اشارہ کیا، تو فرمایا:
|