Maktaba Wahhabi

287 - 756
بچے ابراہیم کے بارے میں جو کہا، حتی کہ اللہ عزوجل نے ان دونوں کو –– امیر المومنین کے ہاتھ پر –– محسوس براء ت کے طور پر ان کے ظلم سے بچایا! ﴿وَرَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِہِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا﴾ (الاحزاب: ۲۵) ’’اور اللہ نے کافروں کو ہٹا دیا اور وہ اپنے غصے میں بھرے ہوئے تھے وہ کچھ بھلائی حاصل نہ کر سکے۔‘‘ اور اس نے اس پر اس طرح تبصرہ کیا: ’’جو شخص اس مصیبت کی تفصیل چاہتا ہو! وہ سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کے احوال مستدرک حاکم (۴/۳۹) میں یا اس کی ذہبی کی تلخیص میں ملاحظہ کرے! وہ اس سے اس منکر روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے! یہ اس کے مکرو خبث میں سے ہے کہ اس نے –– اس کے ضعف شدید کے باوجود –– صرف اس پر اعتماد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے اس پر اضافہ کیا کہ اس نے اس کے الفاظ نقل نہیں کیے! اس نے یہ لوگوں پر تدلیس اور انہیں گمراہ کرنے کے لیے کیا، کیونکہ اگر وہ ایسے کرتا اور الفاظ نقل کرتا تو ہر عقل مند اور دین دار شخص پر یہ واضح ہو جاتا کہ عائشہ اس سے بری ہیں جس کی طرف اس نے اس منکر روایت میں انہیں منسوب کیا ہے۔ اللہ نے انہیں اس تہمت سے بھی بری قرار دیا تھا جو منافقوں نے ان پر لگائی تھی اور وہ براء ت قرآن میں نازل ہوئی جس کی (قیامت تک) تلاوت ہوتی رہے گی۔ شیعہ اس پر ایمان لائیں یا انکار کریں، اللہ ان جھوٹوں اور ان کی تائید کرنے والوں سے ان کے استحقاق کے مطابق معاملہ فرمائے! انا للہ و انا الیہ رٰجعون۔ اس نے اپنے کلام کے آخر میں جو آیت کریمہ ﴿وَرَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ نقل کی ہے اس پر غور کرو، اس نے سیدہ عائشہ پر کفر کا الزام لگایا ہے، حالانکہ کبھی وہ (ص۲۲۹) ان سے راضی ہوتا ہے اور (ص۲۳۸) پر اعتراف کرتا ہے کہ انہیں فضیلت و مقام حاصل ہے۔ وہ یہ (فضیلت و مقام کا ذکر) اس کے ہاں تقیہ کی قبیل سے ہے جو ان کے ہاں معروف ہے۔ ورنہ وہ کس طرح انہیں ان لوگوں کے زمرے میں شامل کرتا جنہوں نے کفر کیا؟ اللہ اس سے اس کے استحقاق کے مطابق معاملہ فرمائے! ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۷۰۴) میں حدیث رقم (۴۹۶۵)[1] کے تحت بیان کیا: اس شیعی نے اس باطل روایت کو بھی ایسا ناجائز استعمال کیا ہے جو کہ اچھا نہیں۔ اس نے اس کے ذریعے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر طعن کیا ہے، اس نے انہیں جھوٹ کی طرف منسوب کیا ہے، جیسا کہ اس نے اس سے پہلی حدیث کے ذریعے ان پر طعن کیا ہے![2]
Flag Counter