﴿سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ﴾ (المعارج: ۱۔۲) ’’سائل نے کافروں کے لیے واقع ہونے والے عذاب کے بارے میں سوال کیا، جسے کوئی روکنے والا نہیں ہو گا۔‘‘
اور اس نے اس کی تخریج میں حاشیے میں کہا:
’’امام ثعلبی نے اسے اپنی ’’تفسیر کبیر‘‘ میں نقل کیا۔ یہ کھلی فضیلت ہے، حاکم نے ’’المستدرک‘‘ میں المعارج کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا۔ اس کے دوسرے جزء ص ۵۰۲ کو ملاحظہ کریں۔‘‘
اسی کی مثل خمینی نے (ص۱۵۷) ذکر کیا!
میں نے کہا: میں نے مستدرک کا مذکورہ صفحہ دیکھا! اس میں جو مذکور ہے وہ درج ذیل ہے:
’’سعید بن جبیر سے روایت ہے: ﴿سَأَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ۔ لِّلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ مِّنَ اللّٰہِ ذِیْ الْمَعَارِجِ﴾ [المعارج: ۱۔۲] ذِی المعارج: یعنی درجات والا، سائل نے سوال کیا: وہ نضر بن حارث بن کلدہ ہے، اس نے کہا: اے اللہ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے، تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔‘‘
’’مستدرک‘‘ میں بس یہی مذکورہ بالا عبارت ہے، آپ نے دیکھا کہ انہوں نے اس میں علی کا ذکر کیا نہ اہل بیت کا اور نہ ہی مطلق طور پر ان کی ولایت کا! پس اگر یہ تخریج میں کھلا جھوٹ نہیں، تو وہ کم از کم ناپاک تدلیس ہے۔
پھر یہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے، جبکہ سورۃ المعارج مکہ میں نازل ہوئی، جیسا کہ ’’الدر‘‘ (۶/۲۶۳) میں ہے؟ ! جبکہ اس وقت اہل بیت کا کوئی وجود نہیں تھا! کیونکہ علی نے فاطمہ سے ہجرت کے بعد مدینے میں شادی کی جیسا کہ وہ معروف ہے!!
اگر آپ اس قصے کے بطلان کے متعلق‘ جسے اس نے ثعلبی کی طرف منسوب کیا ہے، مزید تفصیل چاہتے ہیں تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ابن المطہر الحلی الشیعی (۴/۱۰۔ ۱۵) پر ردّ ملاحظہ فرمائیں، اوراس کی روایت … اس نے اسے بھی ثعلبی کی طرف منسوب کیا ہے … کا عبدالحسین کی روایت سے تقابل کریں! آپ دیکھیں گے کہ اس نے اسے مختصر بیان کیا ہے، اس نے یہ اختصار اس چیز کو چھپانے کے لیے کیا ہے جو اس کے بطلان پر دلالت کرتا ہے!
یہ ہے صورت حال جبکہ خمینی نے اس باطل روایت کو بنیاد بناتے ہوئے (ص ۱۵۴۔ ۱۵۵) اس طرف اشارہ کیا ہے:
’’یہ آیت: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (المائدۃ: ۳) حجۃ الوداع کے بعد امیر المومنین کو امام مقرر کرنے کے بعد نازل ہوئی، اور اس پر شیعہ اور اہل السنہ کی گواہی ہے۔‘‘
شیعہ اسی طرح … اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے … کسی قسم کے خوف وخطر اور شرم و حیا کے بغیر
|