تینوں: عبدالحسین، خمینی اور ابن المطہر الحلی کا ایک اور جھوٹ:
ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۵۹۴۔ ۵۹۷) حدیث رقم (۴۹۲۳)[1] کے تحت فرمایا:
ابن جریر طبری نے ’’اپنی تفسیر‘‘ (۶/۵۴) میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عمر کی روایت سے متعدد احادیث ذکر کیں، پھر ابن جریر نے فرمایا:
’’اس آیت کے نزول کے وقت کے بارے میں بہترین قول وہ ہے جو عمر بن خطاب سے مروی ہے: کہ وہ جمعہ کے دن عرفہ کے روز نازل ہوئی، اس کی سند صحیح ہے اور جو ان کے علاوہ اسانید ہیں وہ کمزور ہیں۔‘‘
حافظ ابن کثیر (۳/۶۸) نے ابن مردویہ کی روایت سے پہلی حدیث بیان کرنے کے بعد بیان کیا، اور ان کی روایت سے دوسری حدیث کی طرف بھی اشارہ کیا:
’’صحیح نہیں ہے، نہ یہ اور نہ وہ، بلکہ درست وہ ہے جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں:
کہ وہ عرفہ کے دن نازل ہوئی، اور جمعہ کا دن تھا، جیسا کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب، علی بن ابو طالب، اسلام کے پہلے بادشاہ معاویہ بن ابو سفیان، ترجمان القرآن عبداللہ بن مسعود اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم نے اسے روایت کیا۔‘‘
تنبیہ:… سیوطی اور ان کے علاوہ کسی اور نے ان دونوں حدیثوں کے علاوہ کوئی اور حدیث ذکر نہیں کی، ان الفاظ سے نہ اس معنی میں، پس شیعی کا (ص۳۸) قول: ’’اہل السنہ نے چھ احادیث اپنی اسانید کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع روایت کیں جو کہ اس معنی میں صریح ہیں۔‘‘ اس کے بہت سے اکاذیب یا اس کی تدلیسات میں سے ہے، لہٰذا اس سے دھوکا نہ کھائیں … خمینی نے (ص۱۵۶) اس کی متابعت کی ہے! اس کی مثالوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے (ص۳۸) کہا:
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اس دن ان کی ولایت کا علانیہ انکار کرنے والے شخص کے ساتھ کیا سلوک کیا، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ طور پر اسے کیا، اس نے کہا: اے اللہ! اگر وہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر درد ناک عذاب نازل فرما، تو اللہ نے اس (انکار کرنے والے) پر کھنکتی ہوئی مٹی کا پتھر برسایا جیسا کہ اس نے اس سے پہلے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا تھا، اور اس حال میں یہ آیت نازل فرمائی:
|