’’ابن الجوزی نے اسے ’’الواھیات‘‘ میں نقل کیا ہے۔‘‘ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے اس کی صراحت کر دی تو لوگوں پر بھید کھل جائے گا کہ وہ اپنی کتاب کو سیاہ کرنے اور اپنے مذہب کے لیے دلیل کی خاطر ضعیف بلکہ موضوع روایات کو ناحق استعمال میں لاتا ہے، واللہ المستعان!
اور ہمارے شیخ نے ’’مصدر سابق‘‘ (۱۰/۵۴۳۔۵۴۴) میں حدیث رقم (۴۹۸)[1] کے تحت فرمایا:
اور السیوطی نے ’الجامع الکبیر‘‘ (۱/۷۴۴) میں، شیخ علاؤ الدین نے ان کی متابعت میں ’’الکنز‘‘ میں، طبرانی نے ’’الأوسط‘‘ میں ، الخطیب نے ’’ المتفق و المفترق‘‘ میں اور ابن الجوزی نے ’’الواھیات‘‘ میں جابر سے روایت کیا ہے۔
الشیعی نے اسے ’’مراجعات‘‘ (ص۱۷۸) میں ’’الکنز‘‘ کی طرف منسوب کرتے ہوے اسے پہلے دو کی طرف منسوب کیا ہے، اور اسے ان میں سے تیسرے کی طرف منسوب نہیں کیا۔ اور وہ وہی ہے! [2]
ابن الجوزی فی ’’الواھیات‘‘: اس نے قارئین سے جعل سازی اور ان سے اس حدیث کی اس حقیقت حال کو چھپانے کی خاطر کیا جو اس پر اس کے اس کی طرف منسوب کرنے پر دلالت کرتی ہے!
اور اس نے حدیث کا دوسرا حصہ بھی ذکر نہیں کیا، جو عقل مندوں کے ہاں اس کے حال پر دلالت کرتا ہے۔
اور اس کا ایک جھوٹ یہ بھی ہے کہ وہ روایت کو اس کے نقل کرنے والوں میں سے کسی ایک کے ہاں ناقص نقل کرتا ہے، جبکہ وہ بعض مصادر میں اس کی گمراہی اور اس کے کذب سے پردہ اٹھا دیتی ہے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے سابق مصدر (۱۰/۵۵۲) میں حدیث رقم (۴۹۰۴)[3] کے تحت فرمایا:
تنبیہ:…اس شیعی نے مراجعات (ص۱۷۹) میں اس حدیث کو حاکم کی روایت سے نقل کیا اور علی رضی اللہ عنہ کے فرمان کا اضافہ نقل نہیں کیا ! سبب واضح ہے، کیونکہ وہ ان کے اور ان کے اہل بیت کی عصمت کے متعلق دعوے کے ابطال میں صریح ہے، کس طرح جبکہ وہ بیان کرتا ہے۔ اگر وہ صحیح ہے …
میں اور میرے علاوہ کوئی بھی تمہیں معصیت کا حکم دے تو پھر کوئی اطاعت نہیں…!
پس انہوں نے معصیت کے متعلق اپنے حکم کے احتمال میں اپنے آپ کو اور اپنے علاوہ کو برابر قرار دیا، تو کیا جو معصوم ہو اس کی یہ حالت ہو سکتی ہے؟
|