اچھی طرح پاک کردے، اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور دانائی کی باتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو، بلاشبہہ اللہ ہر باریک سے باریک راز کو جاننے والا ہے۔‘‘
یہ سیاق اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ امر اور نہی ہے، اور یہ کہ ازواج اہل بیت سے ہیں، کیونکہ سیاق انہیں کے مخاطبت میں ہے، اور مذکر ضمیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے علاوہ عام ہے جیسے علی، فاطمہ اور ان دونوں کے بیٹے (حسن و حسین) ‘‘[1]
اور انہوں نے ’’مجموع فتاوٰی‘‘ (۱۱/۲۶۷) میں آیت تطہیر کے بعد فرمایا:
’’معنی یہ ہے کہ اس نے تمہیں اس چیز کے متعلق حکم فرمایا ہے جو اہل بیت تم سے ناپاکی دور کر دے گی اور تمہیں خوب پاک کر دے گی، تو جس نے اس کے حکم کی اطاعت کی تو وہ پاک ہو گیا اور اس نے اس سے ناپاکی دور کر دی اس کے برعکس جس نے اس کی نافرمانی کی۔‘‘
محقق آلوسی نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں ابن تیمیہ (۷/۴۷۔ بولاق) کے حوالے سے بیان کردہ معنی ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’عمومی طور پر، اگر عصمت سے مقصود معنی ثابت ہوتا تو اس طرح کہا جاتا: بے شک اللہ نے تم اہل بیت سے ناپاکی دور کر دی اور اس نے تم کو خوب پاک کر دیا ہے، اور یہ بھی کہ اگرعصمت سے معصوم ہونا ثابت ہوتا تو صحابہ، خاص طور پر وہ جو غزوہ بدر میں شریک تھے، وہ سب معصوم قرار پاتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا:
﴿وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ (المائدۃ:۶)
’’لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کر دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
بلکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ﴾ (المائدۃ: ۶)
’’تاکہ وہ تم پر اپنی نعمت پوری کر دے‘‘ میں جو ہے اس کا فائدہ دے، کیونکہ اس اتمام کا وقوع معاصی اور شیطان کے شر سے بچے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
بحث کے لیے ان کے ہاں تتمہ ہے جو بیان ہوا ان کا مضمون اس سے باہر نہیں، لیکن اس میں اسی کی تاکید ہے، تو جو چاہے اس کی طرف رجوع کرے۔
میں نے اس عصمت ’جس کا دعویٰ کیا گیا‘ کے مسئلے کے بارے میں، اس کی اہمیت اور اس کے عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے مضبوط تعلق ہونے کی وجہ سے، کلام طویل کر دیا۔
|