میں نے کہا: وہ شیعہ ضعیف ہے، ابن معین نے کہا: ’’وہ کوئی چیز نہیں‘‘ امام بخاری نے فرمایا: ’’مضطرب الحدیث‘‘ ہے، ابن ابی حاتم نے اپنے والد کے حوالے (۴/۲/۱۹۶) سے فرمایا: ’’وہ قوی نہیں، ضعیف الحدیث ہے۔‘‘
اور وہ حدیث ہیثمی نے ’’المجمع‘‘ (۹/۱۰۸) میں فرمایا:
’’طبرانی نے اسے روایت کیا، اور اس میں یحییٰ بن یعلی الاسلمی ہے، اور وہ ضعیف ہے۔‘‘
میں نے کہا: اور رہے امام حاکم، تو انہوں نے فرمایا: ’’صحیح الاسناد‘‘ جبکہ امام الذہبی نے ان کا اس طرح ردّ کیا۔
’’میں نے کہا: وہ کیسے صحیح ہے جبکہ قاسم متروک ہے، اور اس کا شیخ (یعنی: الاسلمی) ضعیف ہے، اور بے ربط کلام ہے، پس وہ وضع کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں: قاسم (اور وہ ابن شیبہ ہے) کا اس میں تفرد نہیں، بلکہ ابونعیم کے نزدیک دو دوسرے راویوں نے اس کی متابعت کی ہے، پس اس میں اس کے علاوہ اکیلے اسلمی پر محمول ہے۔ جی ہاں! حدیث کے متعلق میرے نزدیک دو دوسری علّتیں ہیں:
(۱)… ابواسحاق (سبیعی) وہ اپنی تدلیس کے ساتھ اختلاط کا شکار تھا، اور اس نے عنعن سے روایت کیا ہے۔
(۲)… اس کی اسناد میں ’’اس سے‘‘ یا ’’اسلمی سے‘‘ اضطراب ہے، وہ اسے کبھی مسند زید بن ارقم سے، اور کبھی مسند زیاد بن مطرف سے بیان کرتا ہے، اور اس سے اسے مطین نے، الباوردی نے، ابن جریر نے اور ابن شاہین نے ’’الصحابہ‘‘ میں روایت کیا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے ’’الاصابۃ‘‘ میں ذکر کیا اور کہا:
’’ابن مندہ نے کہا: ’’وہ صحیح نہیں‘‘ میں نے کہا: اس کی اسناد میں یحییٰ بن یعلی المحاربی ہے، اور وہ کمزور (ضعیف) ہے۔‘‘
میں نے کہا: ان کا کہنا: ’’المحاربی‘‘ یہ ان کی طرف سے سبقت قلمی ہے، وہ تو اسلمی ہے جیسا کہ بیان ہوا اور آگے بھی آئے گا۔
تنبیہ…: اس حدیث کی تخریج، اس کی تنقید اور اس کی علت بتانے کا باعث کئی اسباب ہیں، ان میں سے یہ ہے کہ میں نے شیخ عبد الحسین الموسوی الشیعی کو دیکھا کہ اس نے اپنی ’’مراجعات‘‘ (ص۲۷) میں اس حدیث کی ایسی تخریج کی کہ اس نے اس کے ذریعے قارئین کو وہم میں مبتلا کردیا کہ یہ صحیح ہے جیسا کہ اس جیسے لوگوں کی عادت ہے، اس راہ میں حافظ ابن حجر سے قلمی خطا ہوگئی، پس میں نے اسناد سے پردہ اٹھانے، اس کا ضعف بیان کرنے کی طرف جلدی کی، پھر اس وہم پر جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، رد کیا اور یہ اس سے دو طرح سے تھا، میں ان دونوں کو ذکر کروں گا اور ان دونوں پر گرفت کروں گا اور جو اس میں ہے اسے بیان کروں گا، میں کہتا ہوں:
(۱)… اس نے حدیث کو مطین کی روایت سے بیان کیا ہے اور اس کے ساتھ جسے ہم نے حافظ سے زیاد بن
|