وہی جواب ہمارا جواب ہے، حقیقت حال اس کی تاکید کرتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کا خروج بے کار خون ریزی کے علاوہ کچھ اور مقصد کے لیے نہیں ہوگا اور مثال (انتہائی افسوس کے ساتھ) جزائر کا واقعہ سامنے موجود رہنا چاہیے، کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے؟!
طحاوی نے ’’اپنے عقیدے‘‘ فقرہ (۵۷) میں فرمایا:
’’ہم اہل قبلہ میں سے کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیں گے، جب تک وہ اسے حلال و جائز نہ جانے۔‘‘
ہمارے شیخ نے ’’عقیدہ طحاویہ‘‘ (ص۶۰۔۶۱) پر اپنی تعلیق میں فرمایا:
میں نے کہا: یعنی دلی اور اعتقادی طور پر حلال جاننا، ورنہ ہر گناہ گار عملی طور پر اپنے گناہ کو جائز سمجھتا ہے، یعنی وہ اس کا ارتکاب کرتا ہے، اس لیے اعتقادی طور پر (گناہ کو) جائز قرار دینے والے کے درمیان اور عملی طور پر جائز قررا دینے والے کے درمیان نہ کہ اعتقادی طور پر، فرق کرنا ضروری ہے، اعتقادی طور پر جائز قرار دینے والا بالاجماع کافر ہے، جبکہ عملی طور پر (گناہ کو) جائز قرار دینے والا گناہ گار اس (گناہ) کے عذاب کا مستحق ہے، مگر یہ کہ اللہ اسے بخش دے، پھر اس کا ایمان اسے بچالے۔ جبکہ خوارج و معتزلہ کا عقیدہ اس کے خلاف ہے وہ اس (گناہ گار) کے خلاف دائمی جہنمی ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اگرچہ انہوں نے اسے کافر یا منافق کا نام دینے میں اختلاف کیا ہے، ایک نئی نسل پیدا ہوئی ہے وہ جمہور مسلمانوں کو خواہ وہ حکمران ہوں یا رعایا کافر قرار دینے میں ان کے پیروکار ہیں، ان میں سے کچھ جماعتیں شام اور مکہ وغیرہ میں جمع ہیں، انھیں خوارج کے شبہات کی طرح شبہات ہیں، جیسے وہ نصوص جن میں ہے: جس نے یہ کیا تو اس نے کفر کیا، شارح رحمہ اللہ نے ان میں سے ایک گروہ کا یہاں بیان کیا ہے، اور انہوں نے اہل السنہ کا یہ موقف نقل کیا ہے، کہ ایمان قول و عمل ہے، وہ بڑھتا اور کم ہوتا ہے، بے شک کوئی بھی گناہ ہو، وہ کفر عملی ہے نہ کہ اعتقادی، اور ان کے نزدیک کفر کے بھی مراتب ہیں: کفر سے کم درجہ کا کفر، جیسا کہ ان کے نزدیک ایمان ہے، پھر انہوں نے اس پر ایک اہم مثال بیان کی ہے وہ نئی نسل جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اس کو سمجھنے سے غافل رہی، انہوں نے (ص۳۶۳) پر فرمایا:
یہاں ایک معاملہ ہے اسے سمجھنا واجب ہے، اور وہ ہے: یہ کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے بغیر فیصلہ کرنا بسااوقات ایسا کفر ہوتا ہے جو ملت (دین) سے خارج کردیتا ہے اور کبھی معصیت ہوتا ہے، کبیرہ یا صغیرہ، اور کبھی کفر ہوتا ہے: مجازی طور پر یا کفر اصغر، دونوں مذکورہ اقوال کے مطابق، اور یہ حاکم (فیصلہ کرنے والے) کے حال کے حساب سے ہے، کیونکہ اگر وہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا واجب نہیں اور یہ کہ اسے اس میں اختیار ہے یا وہ اس کا مذاق اڑاتا ہے حالانکہ اسے یقین ہے کہ وہ اللہ کا حکم ہے، یہ سب سے بڑا کفر
|