معاملہ مشتبہ ہوگیا یا اس سے دھوکا کیا گیا، تو میں انھیں ایک نصیحت اور یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں، جس کے ذریعے انھیں اپنی غلطی معلوم ہوگی اور شاید کہ وہ ہدایت پاجائیں۔
میں کہتا ہوں: یہ معلوم ہے کہ مسلمان کو احکام میں سے جو بھی حکم دیا گیا ہے وہ استطاعت پر موقوف و منحصر ہے، حتیٰ کہ جو ارکان اسلام میں سے ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (اٰل عمران:۹۷)
’’لوگوں پر اللہ کی خاطر بیت اللہ کا حج کرنا اس شخص پر فرض کیا گیا ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘
یہ تو بالکل واضح ہے اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔جو چیز تفصیل طلب ہے، وہ دو حقیقتوں کا تذکرہ ہے:
۱: اللہ کے دشمنوں سے قتال (خواہ وہ کسی بھی نوع کا ہو) اس میں اللہ کے احکام کے لیے سرتسلیم خم کردینے اور ان کی اتباع کرنے کے لیے نفس کو تربیت کی ضرورت ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَلْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ فِی طَاعَۃِ اللّٰہِ۔)) [1]
’’مجاہد وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر تیار کیا۔‘‘
۲: یہ مادی اور جنگی اسلحہ کی تیاری کا تقاضا کرتا ہے، جو اللہ کے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے، اللہ نے اس کے متعلق امیر المومنین کو حکم دیا تو فرمایا:
﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ﴾ (الانفال:۶۰)
’’ان کے لیے جس قدر ہوسکے قوت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو، اس کے ذریعے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو ڈراتے ہو۔‘‘
اور استطاعت کے ہوتے ہوئے اس سے کوتاہی کرنا منافقوں کی علامت ہے، اسی لیے رب العالمین نے ان کے بارے میں فرمایا:
﴿وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً﴾ (التوبۃ:۴۶)
’’اور اگر وہ (جہاد کے لیے) نکلنے کا ارادہ رکھتے تو وہ اس کے لیے تیاری کرتے۔‘‘
اور میں پختہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ یہ مادی تیاری مومنوں کی جماعت آج اپنے حکام کی طرف سے علم کے بغیر اس کا اہتمام و ادائیگی نہیں کرسکتی (جیسا کہ معلوم ہے) اور یہ اس کی ذمہ داری ہے، لہٰذا کسی جماعت کی طرف سے
|