دوم …: ہم نے تسلیم کیا کہ وہ (الف لام) استغراق کے لیے ہے، لیکن اس سے ہر مسلمان فرد قطعی طور پر مراد نہیں، اگر وہ جاہل ہو اسے علم کی کچھ بھی سوجھ بوجھ نہ ہو، تو پھر ضروری ہے کہ اسے ان میں سے اہل علم پر محمول کیا جائے، اور میرے خیال میں اس سے ان میں سے کسی کو بھی مفر نہیں۔
تو جب یہ صحیح ہے، تو پھر وہ اہل علم کون ہیں؟ کیا ان (اہل علم) میں وہ مقلد داخل ہوں گے جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول سے سمجھنے کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلیا ہے اور انہوں نے کہا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا؟ ہرگز نہیں وہ ان میں سے نہیں ہیں، اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
حافظ ابن عبد البر نے ’’جامع العلم‘‘ (۲/۳۶۔۳۷) میں فرمایا:
’’علماء کے نزدیک علم کی تعریف: جس کا تو یقین کرلے اور جسے تو بیان کرلے، اور جس شخص نے کسی چیز کا یقین کرلیا اور اسے بیان کرلیا تو اس نے اسے جان لیا، اور اسی اصول کے مطابق جس نے اس چیز کا یقین نہ کیا اور اس کے متعلق تقلید کے طور پر کہا، تو اس نے اسے نہیں جانا، علماء کی جماعت کے نزدیک تقلید اتباع نہیں ہے، کیونکہ اتباع یہ ہے کہ تم قائل کی اس بات کی اتباع کرو جس کی صحت و درستی تمہیں ظاہر ہوجائے، جبکہ تقلید یہ ہے کہ تم اس کے قول کے مطابق بات کرو جب کہ تم نہ تو اسے جانتے ہو اور نہ اس کے قول کا سبب جانتے ہو اور نہ ہی اس کا معنی جانتے ہو۔‘‘[1]
اسی لیے سیوطی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’مقلد کو عالم نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
السندھی نے اسے ’’ابن ماجہ کے حاشیے (۱/۷) میں نقل کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔
اور کئی ایک مقلدین اس پر برقرار ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض نے اس حقیقت کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے اضافہ کیا ہے، انہوں نے مقلد کو جاہل کا نام دیا ہے، ’’ہدایہ‘‘ کے مؤلف نے اس حاشیے کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’قاضی کی فرماں روائی درست نہیں ہوگی حتیٰ کہ… وہ اہل اجتہاد میں سے ہو۔‘‘ انہوں نے ’’فتح القدیر‘‘ (۵/۴۵۶) میں بیان کیا:
|