اس کی مرفوع[1] ہونے کے حوالے سے کوئی اصل نہیں، یہ تو ابن مسعود سے موقوفاً مروی ہے، انہوں نے فرمایا:
’’اللہ نے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو اس نے بندوں کے دلوں میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے بہتر پایا، پس اس نے اسے اپنی ذات کے لیے منتخب کرلیا اور انھیں اپنی رسالت کے منصب پر فائز فرمایا، پھر اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے بعد دوسرے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو اس نے بندوں کے دلوں میں سے آپ کے اصحاب کے دلوں کو بہتر پایا تو اس نے انھیں اپنے نبی کے وزراء بنادیا، وہ اس کے دین (کی حفاظت) پر قتال کرتے ہیں، پس مسلمان جسے اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے، اور مسلمان جسے برا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی برا ہے۔‘‘ (مسند احمد:۳۶۰۰، مسند الطیالسی، (ص:۲۳) اور ابوسعید ابن الاعرابی نے عاصم کے طریق سے زر بن حبیش سے اپنی مجمع (۸۴/۲) میں اسے روایت کیا ہے۔‘‘اور یہ اسناد حسن ہیں۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس سے وہ جملہ روایت کیا، جسے ہم نے اوپر ذکر کیا اور اس کے آخر میں یہ اضافہ نقل کیا:
تمام صحابہ نے سوچا کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنائیں۔‘‘ اور انہوں نے کہا:’’اس کی اسناد صحیح ہیں۔‘‘
ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور حافظ سخاوی نے فرمایا:’’وہ موقوف حسن ہے۔‘‘
پھر ہمارے شیخ نے مصدر مذکور (۲/ ۱۷۔۱۹) میں فرمایا:
یہ دنیا کے عجائب میں سے ہے کہ کچھ لوگ اس حدیث سے اس بات پر دلیل لیتے ہیں کہ دین میں بدعت حسنہ بھی ہے اور اس کے حسنہ ہونے پر دلیل مسلمانوں کا اس کے لیے خوگر ہونا ہے اور وہ امر مشہور ومعروف ہوگیا کہ جس وقت یہ مسئلہ کھڑا ہوا تو ان لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کرنے کی طرف بہت جلدی کی، جبکہ ان پر یہ مخفی رہا کہ
ا …: یہ حدیث موقوف ہے، پس قطعی دلائل کے خلاف اس سے دلیل لینا جائز نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
ب…: فرض کیا اس سے دلیل لینا درست ہے، تو وہ ان نصوص سے متعارض نہیں اس کی کئی وجوہات ہیں:
اوّل…: اس سے مراد صحابہ کا کسی امر پر اجماع اور اتفاق ہے، جیسا کہ سیاق اس پر دلالت کرتا ہے اور ابن مسعود کا اس کے ذریعے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ کے انتخاب پر صحابہ کرام کے اجماع پر استدلال کرنا اس کی تائید کرتا ہے اور اس پر ’’المسلمون‘‘ میں جو ’’الف لام‘‘ ہے وہ استغراق کے لیے نہیں جیسا کہ ان کا وہم ہے، بلکہ وہ ’عہد‘ کے لیے ہے۔
|