جائے اور اس کے برعکس کچھ نہیں، میری مراد ہے ضعیف حدیث پر عمل تب ہے جب اصل عام نہ ملے، پس ثابت ہوا کہ ضعیف حدیث پر عمل اس شرط کے ساتھ ظاہری طور پر ہے، حقیقی نہیں اور یہی مراد ہے۔
ج …: تیسری شرط ضعیف حدیث کی معرفت کی ضرورت میں شرط اوّل سے ملتی ہے، تاکہ اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے اور یہ معلوم ہے کہ وہ حضرات جو فضائل میں ضعیف احادیث پر عمل کرتے ہیں ان میں سے اکثر ان کے ضعف سے واقف نہیں ہوتے اور یہ مطلوب کے خلاف ہے۔
بہرحال ہم مشرق و مغرب میں بسنے والے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ مطلق طور پر ضعیف احادیث پر عمل کرنا چھوڑ دیں، اور یہ کہ وہ اپنی تمام ہمتیں اور توانائیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت احادیث پر عمل کرنے پر مرکوز کردیں، وہ اس قدر ہیں کہ وہ ضعیف سے بے نیاز کردیتی ہیں، اور اسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کے ارتکاب سے نجات ہے، کیونکہ ہم تجربے سے جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو اس میں اختلاف کرتے ہیں وہ اس کذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو ہم نے ذکر کیا ہے، کیونکہ وہ ہر سنی سنائی حدیث پر عمل کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان سے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
(( کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔)) [1]
’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرے۔‘‘
اور اسی پر میں کہتا ہوں: کسی شخص کے گمراہ ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات پر عمل کرے!
|