Maktaba Wahhabi

684 - 756
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۱۷۵) میں مروزی کے کلام کے دوسرے فقرے کی شرح کرتے ہوئے فرمایا: یہ قول ظاہراً باطل ہے، گو کہ مصنف نے اس کے رد کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اس شرح میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بعض ان آیات کی طرف اشارہ کریں جن سے اہل الحدیث نے اس (بدعی تفسیر) کے بطلان پر استدلال کیا ہے، انہوں نے جو کہا اس کا خلاصہ یہ ہے: کہ لفظ ’’جعل‘‘ جب بھی ذکر کیا جائے وہ خلق (پیدا کرنے) کے معنی نہیں دیتا، اور وہ ہر جگہ جہاں بھی واقع ہو تو ضروری نہیں کہ وہ ’’پیدا کرنے‘‘ کا معنی دیتا ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَوَھَبْنَا لَہُ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ﴾ (العنکبوت:۲۷) اس آیت میں لفظ ’’جعلنا‘‘ سے ’’پیدا کرنے‘‘ کا معنی قطعاً نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کی کسی پیدا شدہ چیز کی طرف اضافت کی ہے: یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ﴾ (یوسف:۷۰) بلکہ مشرکوں کے بارے میں فرمایا: ﴿وَجَعَلُوْا الْمَلَائِکَۃ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنٰثًا﴾ (الزخرف: ۱۹) کیا یہ معنی ہے کہ مشرکوں نے فرشتوں کو پیدا کیا…؟ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کیبدعی تفسیر سے بہت بلند وبرتر ہے۔ جب یہ واضح ہوا تو اس لفظ مذکور کی اس جگہ کے حوالے سے تفسیر کرنا ضروری ہے جہاں سے وارد ہوا ہے، جب اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا﴾ (الزخرف:۳) تو وہ قطعی طور پر قرآن ہے، اور قرآن قطعی طور پر اس کا کلام ہے، اور اس کا کلام اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے، وہ سب ازلی ہیں اور اس کی ذات کی طرح غیر مخلوق ہیں، لہٰذا اس لفظ کی اس طرح تفسیر کرنا جائز نہیں جو قطعی امور کے منافی ہو، انہوں نے کہا: معنی: یہ کہ جب اللہ تعالیٰ تمام زبانیں جانتا ہے تو وہ اس پر قادر ہے کہ وہ ان میں سے جس زبان سے چاہے اور جب چاہے کلام کرے، اگروہ چاہے تو عربی بولے، اور اگر چاہے تو عبرانی بولے، اس نے فرمایا: ﴿اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا﴾ [الزخرف: ۳] یعنی: اس نے اسے اپنے کلام سے عربی بنایا، جس طرح تورات اور انجیل کو اپنے کلام سے عبرانی بنایا، اسی لیے اس نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کرے، جیسا کہ اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا، لہٰذا اس کے فرمان: ﴿جَعَلْنٰہُ﴾ کا معنی ہے: ہم نے اسے ایک لغت سے دوسری لغت میں بدلا، یہ معنی نہیں کہ ہم نے اسے پیدا کیا، ’’الرد علی المریسی‘‘ (ص۱۲۳۔۱۲۴) دیکھیں۔
Flag Counter