انہی میں سے ہے۔ واللّٰہ اعلم۔‘‘
اس کا جواب کئی طرح سے ہے:
۱: اس حدیث میں اس کے استحباب کی مزعومہ تفصیل نہیں ہے، اگر اس کی سند صحیح بھی ہو تو اس میں اصلاً کوئی حجت نہیں۔
۲: تفصیل مذکور شرع میں ثابت نہیں کہ وہ فضائل اعمال میں سے ہے کہ کہا جائے: کہ اس حدیث پر عمل کیا جائے گا کیونکہ وہ فضائل اعمال میں ہے، بلکہ اس پر عمل جائز قرار دینا ضعیف حدیث پر عمل کی مشروعیت میں ہے، بلکہ اس پر عمل کا جواز ضعیف حدیث پر عمل کی مشروعیت کا اثبات ہے، اس لیے کہ مشروعیت کا کم از کم درجہ استحباب ہے، اور وہ پانچ احکام میں سے ایک حکم ہے جو کہ صحیح دلیل ہی سے ثابت ہوتے ہیں، اس میں علماء کے اتفاق کے مطابق ضعیف فائدہ مند نہیں۔
۳: یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے بلکہ وہ ابن حبان کی تنقید کے مطابق موضوع ہے۔
۹۱: پہلی مٹھی ڈالنے پر ’’بسم اللہ‘‘ دوسری پر ’’الملک للہ‘‘ تیسری پر ’’القدرۃ للہ‘‘ چوتھی پر ’’العزۃ للہ‘‘ پانچویں پر ’’العفو والغفران للہ‘‘ چھٹی پر ’’الرحمۃ للہ‘‘ پھر ساتویں میں یہ پڑھے گا: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ﴾ (الرحمن: ۲۶) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان پڑھے گا: ﴿مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ﴾ (طٰہٰ: ۵۵) پوری آیت۔ ’’احکام الجنائز‘‘ (۳۱۸/ ۹۱) ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۲/ ۹۱) ۔
۹۲: میت کو دفن کرتے وقت سات سورتیں: الفاتحہ، الفلق، الناس، الاخلاص، النصر، الکافرون اور القدر اور یہ دعا پڑھنا:
اللہم انی اسألک باسمک العظیم، واسألک باسمک الذی ہو قوام الدین، واسألک… واسألک… واسألک… واسألک باسمک الذی اذا سُئِلتَ بہ اعطیتَ واذا دُعیت بہ اجبتَ، ربَّ جبرائیل، ومیکائیل واسرافیل وعزرائیل… آخرتک۔ [1]
’’احکام الجنائز‘‘ (۳۱۸/ ۹۲)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۲/ ۹۲) ۔
۹۳: میت کے سر کے پاس سورۂ فاتحہ[2] اور اس کے پاؤں کے پاس سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات
|