Maktaba Wahhabi

457 - 756
اعتراض ثابت نہیں ہوا، لہٰذا وہ مستحسن بدعت ہے، کیونکہ وہ (تزئین) مسجد کا شوق دلاتی ہے، اور ان دلائل کا کوئی ایسا شخص ارادہ نہیں کرسکتا جس کا توفیق میں کوئی حصہ ہو، خاص طور پر جبکہ وہ ان احادیث کے مقابل ہو جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ تزئین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر سے نہیں، یہ کہ وہ ایسا فخر کرنا ہے جو کہ حرام ہے اور یہ کہ وہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے جیسا کہ علی، ان پر سلامتی ہو، سے مروی ہے، کہ وہ یہود و نصاریٰ کے عمل سے ہے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مخالفت کرنے کو پسند فرماتے تھے اور عموماً و خصوصاً اس کی طرف راہنمائی فرماتے تھے، اور سلف کے ترک اعتراض کا دعویٰ ممنوع ہے، کیونکہ تزئین بدعت ہے جسے ظالم حکومتوں کے حکمرانوں نے اہل علم و فضل کو اطلاع کیے بغیر اور ان سے اجازت لیے بغیر شروع کیا اور انہوں نے ایسی ان گنت بدعات جاری کیں اور کسی نے ان پر اعتراض نہ کیا، اور علماء نے خوش نہیں بلکہ اپنا بچاؤ اختیار کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی، بلکہ علماء کی دوسری جماعت ان کے باطل کے مقابل کھڑی ہوگئی اور انہوں نے ان کے سامنے ان کے خلاف زوردار آواز سے احتجاج کیا اور یہ دعویٰ کہ وہ بدعت حسنہ ہے باطل ہے اور ہم درج ذیل حدیث کی شرح میں اس کے بطلان کی وجہ آپ کو بتاچکے ہیں: (( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ۔)) ’’جس نے کوئی عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘ اور یہ روایت ’’باب الصلوۃ فی ثوب الحریر والغصب‘‘ (ریشم اور غصب کے کپڑے میں نماز) میں ہے، اور یہ دعویٰ کہ اس سے مسجد کا شوق پیدا ہوتا ہے فاسد ہے، کیونکہ اس کے مسجد اور اس کے شوق و رغبت کے محرک ہونے کا تعلق اس شخص سے ہے جس کی غرض و غایت صرف ان نقوش اور تزئین کو دیکھنا ہو، رہا وہ شخص جس کی غرض اللہ کی عبادت کے لیے مساجد کا قصد ہو۔ حقیقی عبادت وہ ہے جس میں خشوع ہو ورنہ وہ اس جسم کے مانند ہے جس میں روح نہ ہو تو وہ (تزئین) اسے اس (عبادت) سے غافل کرنے والی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نقش و نگار والے کمبل میں کیا جسے آپ نے ابوجہم کے پاس بھیج دیا تھا، جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا کہ آپ نے وہ پردہ پھاڑ دیا تھا جس میں نقوش تھے، اور جیسا کہ ابھی بیان ہوا ’’باب تنزیہ قبلۃ المصلی عما یلھی‘‘ اور کچھ بدعات کی تقدیم جنھیں حکمران جاری کرتے ہیں اہل علم کو تنگ راہوں میں مبتلا کردیتی ہیں، تو وہ اس کے لیے بودی دلیلوں سے تکلف کرتے ہیں جو صرف کسی کم عقل پر ہی پیش کی جاسکتی ہیں۔‘‘ اور اس سلسلے میں یہ دعویٰ کرنا کہ جس نے تزئین کی اس پر سلف کی طرف سے کوئی انکار و اعتراض نہیں ہوا، عمومی طور پر باطل ہے۔ اسماعیل بن عبد الرحمن بن ذویب نے بیان کیا، میں ابن عمر کے ساتھ جحفہ میں ایک مسجد میں گیا، انہوں نے اس کی بالکونیوں کی طرف دیکھا تو وہ ایک جگہ کی طرف باہر نکل آئے اور انہوں نے وہاں نماز
Flag Counter