ہی دور ہے۔
(۲)… یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے عموم کے خلاف ہے: ’’جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے… ’’الحدیث‘‘[1] لہٰذا اس کے عموم پر باقی رہنا واجب ہے، ہم اقامت میں کہیں گے: ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ غور کریں۔
اور ’’تمام المنۃ‘‘ (ص ۱۴۹۔۱۵۰) میں یہ ہے:
ان [2] کا قول: ’’اقامت سننے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ وہی کہے جو اقامت کہنے والا کہتا ہے، البتہ جب وہ ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ کہے تو یہ کہنا مستحب ہے: ’’ أقامھا اللہ و أدامھا‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے روایت ہے کہ بلال نے اقامت شروع کی، جب انہوں نے ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ کہا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: أقامھا اللہ و أدامھا۔‘‘
میں[3] نے کہا: بلکہ مستحب یہ ہے کہ وہ اسی طرح کہے جس طرح اقامت کہنے والا ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ کہتا ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا عموم ہے: ’’جب تم مؤذن کو سنو تو جس طرح وہ کہتا ہے تم بھی اسی طرح کہو۔‘‘ [4] تو اس کی اس جیسی حدیث کے ساتھ تخصیص کرنا جائز نہیں، کیونکہ وہ روایت ضعیف ہے، نووی، عسقلانی اور ان دونوں کے علاوہ ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
ہمارے شیخ نے ’’تمام المنۃ‘‘ (ص۳۵) کے مقدمے میں بیان کیا:
اس قول کی اس ضعیف حدیث [5] کے علاوہ کسی اور حدیث میں مشروعیت ثابت نہیں ہوئی، ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الارواء‘‘ (۱/۲۵۸۔۲۵۹) میں حدیث رقم (۲۴۱) کے تحت بیان کیا:
بیہقی نے ان الفاظ سے اس روایت کی تضعیف کی طرف اشارہ کیا اور اس کے بعد کہا:
’’اور اگر یہ صحیح ہے تو شافعی نے جسے اچھا قرار دیا ہے وہ ان کے قول سے شاہد ہے: ’’اَللّٰھُمَّ اَقِمْھَا وَ اَدِمْھَا وَ اجْعَلْنَا مِنْ صَالِحِ اَھْلِھَا عَمَلاً‘‘ ’’اللہ! اسے قائم و دائم رکھ اور ہمیں عمل کرنے کے حوالے سے اس کے صالح افراد میں شامل فرما۔‘‘
میں[6] نے کہا: یہ جسے شافعی نے اچھا قرار دیا ہے، رافعی نے اسے ان سے لیا ہے پس انہوں نے اسے اس
|