Maktaba Wahhabi

382 - 756
منتقل کرنا اس مشروع میں بدعت ہے۔‘‘ جان لینا چاہیے کہ انہوں نے بالکل ہی منتقل نہیں کیا کیونکہ اذان نبوی منبر کے سامنے اس کے قریب ہوتی تھی۔ علامہ کاشمیری[1] نے فرمایا: ’’میں نے اس اذان کے مسجد کے اندر ہونے کے حوالے سے مذاہب اربعہ کے ہاں کوئی دلیل نہیں پائی، مگر جو ’’ہدایہ‘‘ کے مؤلف نے کہا: کہ وہ توارث (نسل کے بعد نسل) سے آئی ہے، پھر دوسروں نے بھی اسے نقل کیا، میں نے اس سے یہ سمجھا کہ ان کے پاس ’’ہدایہ‘‘ کے مؤلف کی بات کے علاوہ کوئی دلیل نہیں اسی لیے وہ توارث سے وابستہ ہیں۔‘‘ میں نے کہا: کسی بھی صاحب بصیرت پر یہ مخفی نہیں کہ دو امور کی وجہ سے اس طرح کے توارث کی کوئی قیمت نہیں: اوّل:… یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے بعد خلفاء راشدین کے عمل کے خلاف ہے۔ دوم:… اس کی ابتداء عہد ہشام سے ہے نہ کہ عہد صحابہ سے جیسا کہ میں نے سمجھا، اور ابن عابدین نے ’’الحاشیۃ‘‘ (۱/۷۶۹) میں بیان کیا: ’’عرف حادث کی کوئی حیثیت نہیں جب وہ نص کی مخالفت کرے کیونکہ عرف جواز پر صرف تب ہی دلیل ہو گا جب وہ صحابہ اور مجتہدین کے دور میں عام تھا جیسا کہ انہوں نے اس کی صراحت کی ہے۔‘‘ جو کچھ بیان ہوا اس سے واضح ہوا کہ اذان عثمانی کو دروازے پر اور اذان محمدی کو مسجد میں مقرر کرنا بدعت ہے، اس کی اتباع واجب نہیں، لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے احیاء کی خاطر اسے جامع مسجد سے ختم کرنا واجب ہے۔ انہوں نے ’’مصدر سابق‘‘ (ص۳۵) میں بیان کیا: لیکن ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ مسجد میں لاؤڈ سپیکر کے سامنے اذان دینا کئی امور سے مشروع نہیں، ایک یہ ہے وہاں تلاوت کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں اور ذکر کرنے والوں کے لیے باعث تشویش ہے، اور دوم یہ کہ مؤذن کا اپنے جسم سمیت ظاہر نہ ہونا، یہ (اذان) عظیم اسلامی شعار کی تکمیل ہے۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مؤذن کا مسجد پر نمایاں ہونا ضروری ہے، اور لاؤڈ سپیکر پر اذان (دینے کی بھی ضرورت ہو تو) دونوں مصلحتوں کو اکٹھا کیا جائے گا، اور یہ تحقیق مسجد کے اوپر ایک خاص جگہ مقرر کرنے کا تقاضا کرتی ہے، مؤذن وہاں چڑھے، لاؤڈ سپیکر (کا مائیکروفون) اس کے پاس وہاں پہنچایا جائے، وہ اس کے سامنے اذان دے، اور وہ لوگوں کو نظر آئے۔
Flag Counter