Maktaba Wahhabi

255 - 756
ذہبی نے ان دونوں کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔!! بلکہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس کی طرف سے اعتذار میں بہت دور تک وسعت اختیار کروں، تو میں نے کہا: شاید کہ اس کی نظر اس سے پہلے صفحہ پر منتقل ہوئی ہو، کیونکہ اس پر اعتبار کرتے ہوئے کہ وہ کتاب کے پیش لفظ میں ایک ہی صفحہ پر دونوں آپس میں ملتی جلتی ہیں! بسا اوقات سہواً ایسے ہو جاتا ہے کہ نقل کرتے وقت نظر دونوں میں سے ایک سے دوسری کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، لیکن میں نے اس کا معاملہ اس جیسی کے معاملے کی طرح پایا، اس میں بھی ایسی کوئی حدیث نہیں جو شیخین کی شرط پر صحیح ہو! تو مجھے یقین ہو گیا کہ اسے بھی شیعی نے گھڑا ہے اور اس نے عمداً جھوٹ باندھا ہے، تو منصف لوگ اس جیسے مؤلف کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟! پھر میں نے اس کا اسی کی مثل ایک اور جھوٹ دیکھا، اس نے (ص۴۵ کے) حاشیے میں کہا: ’’امام حاکم نے ’’المستدرک‘‘ (۳/۴) میں ابن عباس سے روایت کیا، انہوں نے کہا: ’’شری عليٌّ نفسہ و لبس ثوب النبی…‘‘ حاکم نے شیخین کی شرط پر اس کی صحت کی تصریح کی ہے اگرچہ ان دونوں نے اسے روایت نہیں کیا، اور ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں ذہبی نے اس کا اعتراف کیا ہے۔‘‘!! جب قاری نے مذکورہ صفحے، جزء اور حدیث کی طرف رجوع کیا، اس نے صرف حاکم کا یہ قول پایا: ’’صحیح الاسناد اور ان دونوں نے اسے روایت نہیں کیا! اور امام ذہبی کا قول: ’’صحیح‘‘ ہے! اس حدیث میں اس سے بہانے کے لیے کوئی مجال نہیں۔ ایسے بھی نہیں کہہ سکتا: ہو سکتا ہے اور امید ہے! کیونکہ مذکورہ صفحہ اور اس کے سامنے والا صفحہ ان دونوں میں شیخین کی شرط پر کوئی دوسری حدیث نہیں جسے صحیح قرار دیا گیا ہو۔ پھر یہ کہ ابن عباس کی اسناد میں یہ اس پر حکم لگانے سے منع کرتا ہے کہ وہ شیخین کی شرط پر ہے! سن لو وہ ابو بلج عن عمرو بن میمون کی سند سے ہے … اور اس رافضی کے حافظ ذہبی رحمہ اللہ پر اکاذیب میں سے یہ بھی ہے: ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے مصدر سابق (۱۰/ ۶۳۷۔ ۶۳۸) میں حدیث رقم (۴۹۴۰)[1] کے تحت فرمایا: تنبیہ:…اس شیعی نے اس حدیث کو مراجعات (ص۱۴۷) میں حاکم کی روایت سے اس جگہ نقل کیا ہے جہاں سے میں نے اسے نقل کیا ہے، پھر کہا: ’’ذہبی نے اسے اپنی ’’تلخیص‘‘ میں اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے روایت کیا۔‘‘
Flag Counter