Maktaba Wahhabi

212 - 756
حفظ اور اتقان کے حوالے سے روایت میں ان کے نزدیک غیر موزوں ہے! پھر وہ اسی کی شرح (۱/۱۷۷۔۱۷۹) میں ان صحیح متواتر احادیث اور بہت سے ثابت و مشہور آثار سے اعراض کرتا ہے، اور وہ اپنی اباضیت کے تعصب کے طور پر جنبش قلم سے انہیں ضعیف قرار دیتا ہے، وہ کہتا ہے: ’’میں نے جان لیا کہ اس بارے میں سنت ثابت نہیں!‘‘ اس نے جو کہا ہے وہ اس میں دو وجہ سے سچا نہیں: ۱: اس نے تواتر کا انکار کیا ہے، پس اس جیسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ﴾ (النمل:۱۴) ’’اور انہوں نے اس سے انکار کیا حالانکہ ان کے دل اسے مان چکے تھے۔‘‘ صادق آتا ہے۔ ۲: اس کا یہ کہنا: ’’میں نے جان لیا…‘‘ دعویٰ کی صحت کی معرفت تو دلیل و برہان ہی پیش کرنے سے ہوتی ہے جیسا کہ وہ بدیہی طور پر ذہنوں میں قائم ہے، اور اس نے اس میں سے کچھ بھی نہیں کیا محض دعویٰ کیا ہے، اور یہ ان کے اس عالم کی حالت ہے جس کے متعلق بعض مصنّفین کا خیال ہے کہ وہ معتدل ہے متعصب نہیں، گمراہوں کو ان متواتر اخبار کو جن کا اہل حدیث نے خوب اہتمام کیا ہے ردّ کرنے تک تعصب ہی نے تو پہنچایا ہے اور ایسا اہتمام اور توجہ ان گمراہوں کی طرف سے نہیں ہوئی اور وہ اپنے مذہب کی صحت و درستی پر دلیل قائم کرنے سے عاجز ہیں جس (مذہب) میں وہ اہل السنہ اور اہل الحدیث سے الگ ہوگئے۔ فَہٰذَا الْحَقُّ لَیْسَ بِہِ خِفَائٌ فَدَعْنِی مِنْ بُنَیَّاتِ الطَّرِیْقِ ’’یہ حق ہے، مجھے اس میں کوئی التباس نہیں۔ پس مجھے چھوٹے چھوٹے راستوں سے چھوڑو۔‘‘ اس سے پہلے کہ میں قلم تھاموں اور کہوں: السالمی شخص کی عادت ہے کہ وہ اپنی بے سوچی سمجھی باتوں پر اپنا کلام بیان کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مذہب اور اپنی خواہشات کی تائید کرتا ہے، ان میں سے یہ ہے کہ اس نے بعض علمائے اہل السنہ کو جو کہ ظاہری ہیں شیعہ اور خوارج کے ساتھ ملادیا ہے، اس نے (ص۱۷۸ پر) مذکورین پر عطف کے طور پر کہا: ’’اور ابوبکر بن داود الظاہری۔‘‘ میں کہتا ہوں: یہ ابوبکر، محمد بن داود بن علی الظاہری ہیں، امام الذہبی نے ’’السیر‘‘ (۱۳/۱۰۹) میں ان کے حالات زندگی ذکر کیے ہیں: ’’انہوں نے اپنے والد، اور عباسی الدوری سے حدیث بیان کی… وہ حدیث اور اقوال صحابہ کے
Flag Counter