پہلا قول یہ ہے کہ بغیر رمضان کی نیت کیے وہ روزہ کافی نہیں ہو گا۔ اگر وہ مطلق نیت سے یا مشروط نیت سے یا نفل نذر کی نیت سے روزہ رکھ لے تو اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ امام شافعی کا مشہور مسلک یہی ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت یہ آتی ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ بالکل اس کے لیے کافی ہے۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ مطلق نیت کے ساتھ تو کافی ہے لیکن رمضان کے سواکسی اور نیت کی تعیین کے ساتھ کافی نہیں ہے۔ یہ تیسری روایت احمدکی ہے اور خرقی اور ابو البرکات نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
اس مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ نیت علم کے ساتھ آئی ہے۔ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ کل رمضان ہے تو اس صورت میں تعیین واجب ہے۔ اگر وہ نفل یا مطلق روزہ کی نیت کرے تو کافی نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ واجب کی ادائیگی کا قصد کرے اور وہ رمضان کا مہینہ ہے جس کے وجوب کا اسے علم ہے۔ اگر وہ واجب کی ادائیگی نہ کرے تو اپنے ذمہ سے بری نہ ہو گا۔لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو کہ کل رمضان کا روزہ ہے تو نیت کی تعیین اس پر واجب نہیں ہے اور جس نے نا واقفیت کے باوجود تعیین کو واجب کیا ہے تو اس نے دو متضاد چیزوں کو جمع کرنا واجب قرار دیا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس کاروزہ رکھناجائز ہے اور اس صورت میں مطلق نیت کے ساتھ روزہ رکھ لے یا مشروط نیت کے ساتھ اس کے لیے کافی ہے اگر وہ نفلی روزہ رکھے پھر اسے معلوم ہو جائے کہ رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، تو زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ اس کے لیے یہ روزہ کافی ہے۔ جیسے کسی شخص کی اس کے پاس امانت رکھی ہو اور اسے خبر نہ ہو اور وہ ہدیتاً اسے دے دے پھر اسے بعد میں پتہ چلے کہ یہ اس کاحق تھا تو اسے دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کہہ دے گا کہ جو چیز آپ کے پاس پہنچ گئی ہے وہ میرے اوپر آپ کا حق تھا۔ اور اللہ معاملات کے حقائق سے واقف ہے۔ اور امام احمد سے روایت کی جاتی ہے کہ اس
|