چونکہ عموماً خواہش پسند،شہوت پرست اور غصہ پرور لوگ حدود اللہ کو پھاند جاتے ہیں ،اس لیے شہوت و خواہش اور غصہ کی مطلقاً مذمت کی گئی کیونکہ بسا اوقات اس کا ضرر و نقصان اس قدر عام ہوجاتا ہے کہ کوئی شہوت پرست اور غصہ پرور انسان بھی اس کی لپیٹ سے باہر نہیں رہ سکتا تھا۔
شہوات اور اختلافِ مزاج:
اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جس طرح مزاج مختلف ہوتے ہیں ، ایک مزاج معتدل جو ہر طرح سے معتدل ہو، بہت قلیل و نادر ہوتا ہے،بلکہ ایک نہ ایک خلط و کیفیت اس پر ضرور غالب رہتی ہے، اسی طرح لوگ بھی مختلف نوعیت اور مختلف الاقسام ہوتے ہیں اور ایسے خوش قسمت انسان کم ہی ہوتے ہیں جو غصہ و خواہشِ نفس کے مقام پر پہنچ کر رک جائیں ، یا عدل و انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں کو اپنی اپنی حدود میں صحیح طور پر استعمال کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔
طبیب و ناصح کی مثال:
یہی وجہ ہے کہ جس طرح ایک طبیب کا یہ منشا ہوتا ہے کہ مزاج ہر طرح سے معتدل ہو جائے، اسی طرح ناصح و خیر خواہ کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ قوتِ شہوانیہ و قوتِ غضبیہ ہر طرح سے اعتدال پر آجائیں ، مگر یہ ایسا مشکل مسئلہ ہے جو تمام دنیا میں سے صرف چند افراد میں پایا جا سکتا ہے۔
خواہشات اور کتاب و سنت:
اسی لیے کتاب اللہ میں کوئی مقام ایسا نہیں ملے گا جہاں خواہشات کی مذمت نہ ہو، اور سنتِ رسول و حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی جگہ ایسی نہ ملے گی جہاں اس کی برائی موجود نہ ہو، الا یہ کہ اتباع نبوی سے مشروط و مقید اور اس کے ماتحت ہو، جیسا کہ ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوٰہُ تَبِعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ۔))
’’جب تک کسی کی تمام خواہشات میری شریعت کے تابع نہ ہو جائیں ، وہ مومن
|