’’کیا بدکار لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم انہیں نیکوکار مومنوں جیساکر دیں ؟ ان کی زندگی و موت ( ان) جیسی ہو؟ اگر یہی خیال ہے تو بہت برا فیصلہ ہے۔‘‘
تقدیر کی عدم حجیت:
تقدیر کی حجیت پر یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ تقدیر تو سب کی مقدر ہو چکی ہے اور ان کی پیدائش سے صدیوں پہلے لکھی جا چکی ہے۔اس کے باوجود وہ دو گروہوں میں منقسم نظرآتے ہیں :
(۱) ایمان لانے اورعمل صالح کرنے کے باعث ’’ نیک بخت۔‘‘
(۲) کفر، بدکاریاں اور نافرمانیاں کرنے کی وجہ سے ’’بدبخت۔‘‘
نتیجۂ بحث:
تو معلوم ہوا کہ اللہ کی نافرمانیوں پر قضا و قدر کسی کے لیے حجت نہیں ہو سکتی۔
چوتھی وجہ، خدا کے ظالم ہونے کالزوم:
تقدیرپر ہمار ایمان ہے مگر اپنی بد عملی کے لیے ہم اسے آڑ اور حجت نہیں مانتے۔ اب جو اس سے دلیل و حجت پکڑے اس کی حجت باطل اور جو اسے بطور عذر پیش کرے، اس کا عذر نامقبول ہے۔تقدیر سے حجت پکڑنا قابلِ قبول عذر ہوتا تو ابلیس و دیگر نافرمانوں کا کیا قصور؟ ان سے بھی مقبول ہوتا۔ اگر بندوں کے حق میں تقدیر کوئی دلیل ہوتی تو دنیا و آخرت میں خدا تعالیٰ کسی مخلوق کو خواہ مخواہ عذاب نہ کرتا۔ اگر تقدیر کچھ حجت بن سکتی تو نہ کسی چور کا ہاتھ قطع کیا جاتا نہ کوئی قاتل قتل کی پاداش میں سزا یاب ہو تا، نہ کسی مجرم پر حد قائم ہوتی،نہ جہاد فی سبیل اللہ کیا جاتا اور نہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہوتا۔
پانچویں وجہ، تکذیب حدیث، انکار اختیار، اور بے عملی کا لزوم:
بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احتجاج بالقدر کے متعلق سوال کیا گیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
|