امام صاحب رحمہ اللہ نے زیارت کو قبر کی طرف منسوب کرنے سے اس لیے منع فرمایا کہ ذرائع شرک کا سدباب ہو۔
زیارت ِقبور کا طریقہ:
میں کہتا ہوں کہ جو حدیثیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کے بارے میں مروی ہیں ،بایں ہمہ کثرت سب کی سب ضعیف یا موضوع ہیں ۔ ائمہ حدیث اور اہل سنن مثلاً امام ابوداؤد اور نسائی وغیرہ نے اس باب میں کوئی حدیث روایت نہیں کی۔ البتہ دوسرے موقع پر عام قبور کے لیے زیارت کا لفظ استعمال ہوا ہے، فرمایا:
((کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور الا فزوروھا فانھا تذکرکم الاخرۃ۔))
’’میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کیا تھا، لیکن اب میں کہتا ہوں کہ بے شک ان کی زیارت کرو،کیونکہ وہ تم کو آخرت یاد دلائیں گی۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو تعلیم دیا کرتے تھے کہ جب تم قبروں کی زیارت کرو تو اس طرح کہا کرو:
((السلام علیکم اہل الدیار من المؤمنین والمسلمین وانا ان شاء اللّٰہ بکم لاحقون،یرحم اللّٰہ المستقدمین منا والمستأخرین نسأل اللّٰہُ النا ولکم العافیۃ۔)) (مسلم: کتاب الجنائز)
لیکن چونکہ بعد کے زمانوں میں ’’زیارت‘‘ کے لفظ کا اطلاق شرعی اور غیر شرعی دونوں طرح کی زیارت پر ہونے لگا اور اکثر لوگ اس کو غیر شرعی زیارت کے لیے استعمال کرتے ہیں ، اس لیے بعض ائمہ نے اس لفظ کا مطلقاً استعمال ممنوع قرار دیا ہے۔
زیارتِ شرعی و بدعی:
زیارتِ شرعی میت پر نماز جنازہ پڑھنے کے مشابہ ہے اور دونوں کا ماحصل اس کے لیے
|