یہ اس کی قسم کی باتیں ہیں جو ان کی غیوبت یا ان کی وفات کے بعد حاصل ہوتی ہیں ۔
فوت شدہ کا واسطہ دے کر دعا مانگنے کے عدم جواز کی وجہ:
چنانچہ مسیح او رعزیر علیہا السلام کے ساتھ ان کی غیبت اور وفات کے بعد شرک کیا گیا۔ پس یہی راز ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی صالح ولی اللہ کی زندگی میں ان کے روبرو ان سے سوال کرنے اور ان کی وفات کے بعد یا غیرحاضری میں ان سے درخواست کرنے میں فرق ظاہر ہوتا ہے اور صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ میں بلکہ تمام سلف صالحین میں سے کوئی شخص ایسا نہ تھا جو انبیاء کی قبور کے پاس نماز پڑھنے کو اختیار و پسند کرتا ہو یا مزارات کے پاس دعا کی ہو اور نہ کبھی غائبانہ ان سے سوال اور استغاثہ(فریاد خواہی) کرتے تھے نہ قبروں کے پاس، علیٰ ہذاالقیاس، اعتکاف اور مجاور ہو کر بیٹھنے کا ان سے کوئی ثبوت نہیں ۔
اور جس استغاثہ کا ذکر مستفتی نے سوال میں کیا ہے کہ مصائب کے وقت کوئی شخص کسی فوت شدہ بزرگ یا غائب کانام لے کر کہے گا یا سیدی فلاں میری فریاد کو پہنچو، میری مدد کرو، گویا ان سے مصیبت کے دور کرنے اور جلب منفعت کی طلب کرتا ہے، تو اس قسم کا استغاثہ بدترین شرک میں سے ہے۔ نصاریٰ کا مسیح علیہ السلام اور والدۂ مسیح مریم رحمہ اللہ اور اپنے عالموں اور درویشوں کے بارے میں یہی خیال اور اعتقاد ہے۔ اور یہ تو ثابت شدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر اور بزرگ ترین خلائق ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ آپ کی قدر و منزلت اور آپ کے حقوق کا علم سب سے زیادہ صحابہ کو تھا۔ باوجود اس کے صحابہ آپ کی غیبت میں یا بعد وفات کوئی اس قسم کی بات نہیں کرتے تھے۔
شرک کے ساتھ جھوٹ لازم ہے:
اور یہ شرک کرنے والے لوگ شرک تو کرتے ہیں مگر شرک کے ساتھ جھوٹ بھی ملا دیتے ہیں ۔ ویسے بھی جھوٹ شرک کا قرین ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
۱۔ ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ
|