Maktaba Wahhabi

450 - 485
((اِتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ۔)) ’’ہر جگہ اللہ کے تقویٰ کو ملحوظ رکھنا۔‘‘ لفظ ((حَیْثُمَا کُنْتَ ))کا استعمال اس امر کا بین ثبوت ہے کہ انسان پوشیدہ اور ظاہر ہر حالت میں تقویٰ کا محتاج ہے۔ پھر فرمایا: ((اِتَّقِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُھَا))یعنی برائی صادر ہونے پر اس کو مٹانے کے لیے فوراً نیکی کرنا۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ جب مریض کوئی مضر چیز کھا لیتا ہے تو طبیب اسے اس کے مصلح کے استعمال کا حکم دیتا ہے۔ چونکہ انسان سے گناہ صادر ہونا بھی حتمی چیز ہے اس لیے دانش مند انسان ہر وقت نیکیوں کی کوشش کرتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام برائیوں کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ حدیث مذکورہ میں لفظ ((سَیِّئَۃ)) مفعول ہونے کے باوجود اس لیے مقدم کیاگیا ہے کہ یہاں نیکی کرنا مقصود نہیں بلکہ نیکی کے ذریعے سے برائی کا مٹانا مقصود ہے۔ لہٰذا یہ قول بعینہٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی طرح ہے کہ: ((صُبُّوْا عَلیٰ بَوْلَہٖ ذَنُوْباً مِّنْ مَّآئٍ۔)) ’’اس شخص کے پیشاب پر پانی کاایک ڈول انڈیل دو۔‘‘ (یہاں پانی گرانا مقصود نہیں ،بلکہ ازالۂ نجاست مقصود ہے۔) مغفرتِ ذنوب کے لیے کون سے اعمال کی ضرورت ہے؟ اور برائیوں کو مٹانے کے لیے اسی جنس کی نیکیوں کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ہم جنسیت کے باعث وہ زیادہ مؤثر و کارگرثابت ہوتی ہیں ۔ اور گناہوں کا نتیجہ و انجام یعنی عذابِ الٰہی مندرجہ ذیل چیزوں سے زائل ہو جاتا ہے: ۱۔ توبہ: یعنی گزشتہ گناہوں سے نادم اور پشیمان ہوکر بیزاری کا اظہار کرنا اور آئندہ کے لیے عملاً
Flag Counter