Maktaba Wahhabi

151 - 485
رحمت کا امیدوار اور اسی کے عذاب سے خائف ہوتا ہے اور اخلاص کے ساتھ عبادت کر کے اسی کو پکارتا ہے اور اس کے شیخ کا حق صرف اس قدر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرید کے لیے دعا کرے اور اس کے ساتھ شفقت سے پیش آئے کیونکہ سب خلقت سے بڑی شان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب لوگوں سے زیادہ آپ کے امر (اور شریعت) کے جاننے والے تھے اور سب سے زیادہ آپ کی قدر و منزلت سے واقف اور سب سے زیادہ آپ کے مطیع تھے اور آپ نے ان میں سے کسی کو یہ حکم نہیں دیا کہ گھبراہٹ اورخوف کے وقت یوں کہیں : ’’یا سیّدی یا رسول اللّٰہ‘‘ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نہ آپ کی زندگی میں ایسا کرتے تھے اور نہ آپ کی وفات کے بعد کیا۔ اللہ سے دعا مانگنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی تاکید: بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کے ذکر اور اسی سے دعا مانگنے اور آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا حکم دیتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاـ: ﴿اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُo فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوْٓئٌ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ﴾ (آل عمران :۱۷۳،۱۷۴) ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو لوگوں نے آکر کہا: تم سے لڑائی کرنے کو لوگ جمع ہو رہے ہیں ، اور ان کو ڈرایا۔ مگر بجائے ڈرنے کے ان کا ایمان اور زیادہ پختہ ہو گیا، اوربول اٹھے کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی اچھا کارساز ہے۔ اور پھر لڑائی پر گئے تو اللہ کی نعمتوں اور فضل سے لدے ہوئے لوٹے اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر کاربند رہے۔ سو اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ ۱۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ کلمات ((حَسْبُنَا اللّٰہُ
Flag Counter