فصل (۴): بت پرستی
تعظیمِ قبور:
بت پرستی کی ابتداء در اصل تعظیمِ قبورہی سے توہوئی ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہے:
﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ (نوح:۲۳)
’’نوح کی قوم کے لوگوں نے آپس میں کہا کہ تم اپنے خداؤں کو ہرگز مت چھوڑو اور بالخصوص ود، سواع،یغوث، یعوق اورنسر کی عبادت کو مت چھوڑو۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں رئیس المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ’’پانچوں نام نوح علیہ السلام کے عہد کے صالحین کے نام ہیں ۔جب یہ لوگ مرگئے تو لوگوں نے ان کی قبروں پر بیٹھنا شروع کیا، ان کی تصویریں بنائیں اور پھر ان کو پوچنے لگے۔‘‘[1]
علاوہ ازیں جن صالحین کی قبروں کو اس زمانے میں تریاقِ مجرب کہا جاتا ہے، ان سے صحابہ اور تابعین کا درجہ یقینا اعلیٰ اور ارفع ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مؤخر الذکر کو چھوڑ کر ان صالحین کی قبروں کو چن لیا گیا ہے؟
شیخ کے توسل سے مرادمانگنا:
ایک اور تعجب انگیز بات سنیے، ہر ایک شخص کی تعظیم اس کے اپنے معتقدین کی جماعت کرتی ہے اور وہی لوگ اس سے یا اس کے واسطہ سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں ۔دوسرے شیخ کے معتقدین کی ایک دوسری جماعت ہوتی ہے جو اپنے اس دوسرے شیخ کو وسیلہ ٹھہراتی اور اس
|