’’ جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنوائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مکان بنا دیتا ہے۔‘‘
لیکن قبروں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ان کو مساجد نہ بناؤ اور قبور کو سجدہ گاہ یا مسجد بنانے والے پر لعنت کی ہے اور متعدد صحابہ اور تابعین نے آیت ﴿لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا﴾(نوح:۲۳) کی تفسیر میں ذکر کیا:
نوح علیہ السلام کی قوم کے شرک کی اصلیت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اور طبرانی وغیرہ نے اپنی تفاسیر میں اور ویثمہ نے قصص الانبیاء میں ان سے قول نقل کیا ہے کہ یہ قوم نوح کے صلحاء کے نام تھے ان کی موت کے بعد لوگوں نے ان کی قبور پر بیٹھنا شروع کیا پھر رفتہ رفتہ امتداد زمانہ سے ان کی تصاویر اور بت تراش لیے درحقیقت قبروں پر اعتکاف کرنا، ان کو ہاتھ لگا کر چومنا اور دل میں یا ان کے پاس دعا وغیرہ اس قسم کے کام شرک اور بت پرستی کی جڑ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی:
((اللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْناً یُعْبَدُ۔))
اور علماء کا اتفاق ہے کہ جو شخص روضہ مبارک یا انبیاء و صالحین، صحابہ یا اہل بیت وغیرہ کے مزارات کی زیارت کرے تو اس کو ان کا چھونا یا بوسہ دینا جائز نہیں ۔ بلکہ دنیا بھر میں جمادات میں سے حجر اسود کے سوا کسی کو بھی بوسہ دیناجائز نہیں اور صحیحین میں حجر اسود کے متعلق بھی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اِنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا اِنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یُقَبِّلُکَ مَاقَبَّلْتُکَ۔))
’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جس کو ہمارے نفع و نقصان کی کوئی طاقت نہیں ۔ اگر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
|